بین الاقوامی سیاست میں اصولوں اور اخلاقیات کی بات اکثر محض دعوؤں تک محدود ہوتی ہے۔ جب عملی فیصلوں کا وقت آتا ہے تو معاشی مفادات اور اسٹریٹجک تعلقات اخلاقی مؤقف پر غالب آ جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو کینیڈا میں ہونے والے جی سیون سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت اسی طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ کینیڈا کے نئے وزیر اعظم مارک کارنی نے یہ دعوت ایسے وقت میں دی ہے جب بھارت پر ایک سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا الزام ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کے کردار پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
بھارت میں سکھ اقلیت گذشتہ کئی دہائیوں سے ریاستی جبر، نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔ 1984 کے آپریشن بلیو اسٹار اور اس کے بعد دہلی میں ہونے والے سکھ مخالف فسادات میں ہزاروں سکھوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ ان فسادات میں حکومتی عناصر کے ملوث ہونے کے ثبوت سامنے آئے مگر آج تک انصاف نہ ہو سکا۔ اسی تناظر میں جب سکھ برادری نے بیرون ممالک میں بھارت کے خلاف آواز بلند کی تو بھارت نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
جون 2023 میں، برٹش کولمبیا میں واقع ایک گوردوارے کے باہر ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کر دیا گیا۔ نجر خالصتان تحریک کے سرگرم کارکن تھے اور بھارتی حکومت کی جانب سے ان پر دہشتگردی کے الزامات لگائے گئے تھے، حالانکہ کینیڈا میں ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہ تھا۔ بعد ازاں کینیڈین انٹیلی جنس نے تحقیقات کے بعد یہ مؤقف اختیار کیا کہ نجر کے قتل میں بھارتی ریاستی ادارے ملوث ہیں۔ یہ الزامات نہایت سنگین تھے کیونکہ انہوں نے کینیڈا کی خودمختاری اور سیکیورٹی پر براہِ راست سوالات اٹھائے۔
سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کھل کر کہا کہ بھارت نے کینیڈا کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔ اکتوبر 2024 میں ایک عوامی انکوائری میں ٹروڈو نے کہا:
ہمارے پاس واضح اور قوی شواہد ہیں کہ بھارت ایک آزاد ملک کی زمین پر قتل جیسا سنگین جرم کرنے میں ملوث ہے۔
جس کے بعد کینیڈا نے بھارت کے ایک اعلیٰ سفارتکار کو ملک بدر کیا، جس کے جواب میں بھارت نے بھی ایسا ہی کیا۔ یہ سفارتی بحران کینیڈا اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ میں ایک نازک موڑ ثابت ہوا۔
مودی کو جی 7 اجلاس میں دعوت دینا بظاہر اقتصادی مفادات کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ہے۔ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، سپلائی چین میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے اور مغربی ممالک کے لیے اہم تجارتی پارٹنر ہے۔ مارک کارنی نے اگرچہ اس فیصلے پر براہِ راست تبصرہ نہیں کیا، لیکن ان کا یہ کہنا کہ "بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور عالمی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے”
اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جیو اکنامکس نے انسانی حقوق، انصاف اور خودمختاری جیسے اصولوں کو شکست دے دی ہے۔
کینیڈا میں موجود ورلڈ سکھ آرگنائزیشن نے وزیراعظم کارنی کے نام خط میں شدید تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ نریندر مودی کو مدعو نہ کیا جائے۔ تنظیم نے کہا:
یہ دعوت ہردیپ سنگھ نجر کے قاتلوں کو انعام دینے کے مترادف ہے اور کینیڈا کی اخلاقی ساکھ کو شدید نقصان پہنچائے گی۔
یہ خط صرف ایک تنظیم کی رائے نہیں بلکہ ہزاروں کینیڈین شہریوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور اقلیتوں کی ترجمانی کرتا ہے۔
کینیڈا کے بعد امریکہ نے بھی بھارت کے خلاف قدم اٹھایا۔ نومبر 2024 میں امریکہ نے بھارتی حکومت سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار وکاش یادو پر ایک سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کا الزام عائد کیا۔ یہ الزام عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو مزید متاثر کرنے والا تھا۔ امریکی اداروں کی یہ کارروائی اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ بھارت کی ریاستی پالیسیوں میں بیرون ملک مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پرتشدد طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔
مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا اکثر انسانی حقوق اور جمہوریت کی علمبرداری کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر جب ان کے معاشی یا سٹریٹیجک مفادات خطرے میں ہوں تو یہی اصول نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ مودی کو جی 7 میں مدعو کرنا، حالانکہ اس پر ریاستی قتل جیسے الزامات موجود ہیں، اسی دوہرے معیار کی ایک اور مثال ہے۔
نریندر مودی کی جی سیون اجلاس میں شرکت انسانی حقوق، عالمی انصاف اور بین الاقوامی قانون کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ یہ صرف کینیڈا کی اخلاقی ساکھ ہی نہیں بلکہ پوری مغربی دنیا کی اصولی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک ایسے شخص کو بین الاقوامی فورمز پر مدعو کرنا جو اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز پالیسیوں، ریاستی جبر اور ماورائے عدالت قتل جیسے الزامات میں گھرا ہوا ہے، یقیناً عالمی ضمیر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر آج ایک ملک دوسرے ملک کی خودمختاری پامال کرکے وہاں قتل کرتا ہے اور پھر بھی اسے عالمی فورمز پر عزت دی جاتی ہے، تو کل کو یہ سلسلہ کہاں رکے گا؟ کیا یہ طرز عمل عالمی نظام میں انتشار کو جنم نہیں دے گا؟
دنیا کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا اصول واقعی اہم ہیں یا صرف معیشت ہی سب کچھ ہے۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003