Nigah

دوہرا کھیل: قومی اسٹیج، غیر ملکی اسکرپٹ

حال ہی میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (NDM) کے آفیشل ایکس (X) اکاؤنٹ سے ایک انٹرویو شیئر کیا گیا جس میں محسن داوڑ نے ایک بار پھر پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہر افشانی کی۔ اس انٹرویو میں انہوں نے ریاست کو پشتونوں کا دشمن بنا کر پیش کیا، پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کے حقائق کو مسخ کیا، اور ایسی زبان استعمال کی جو ہو بہو بھارت کے اسٹریٹیجک بیانیے سے ہم آہنگ ہے۔ ان کا مقصد قوم کو متحد کرنا نہیں بلکہ تقسیم کرنا ہے، وہ پشتون شناخت کو بنیاد بنا کر ایک غیر ملکی ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔

محسن داوڑ خود کو پشتونوں کا نمائندہ کہتے ہیں، مگر ان کی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ دہلی کے جنگی کمروں کی بازگشت سناتا ہے۔ ان کی نام نہاد جدوجہد انصاف کے لیے نہیں، بلکہ غداری کے سکے پر مبنی ہے۔ پاکستان آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے بہادر سپوتوں کو سپرد خاک کر رہا ہے، ایسے میں داوڑ کا ریاست پر پشتون دشمنی کا الزام نہ صرف لغو ہے بلکہ شرمناک بھی۔

جب داوڑ افغان مفرور اشرف غنی سے خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں تو یہ امن کی کوشش نہیں بلکہ سازش کی ایک نئی کڑی ہوتی ہے۔ جب وہ طالبان کے اثرات کا الزام پاکستان پر لگاتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ انہی طالبان کے خلاف پاکستان کے سپاہیوں نے قربانیاں دی ہیں۔ اور جب وہ ریاستی امتیاز کی بات کرتے ہیں تو خیبر پختونخوا میں ہونے والی ترقی کو یکسر نظرانداز کرتے ہیں۔ ان کا ہر لفظ بھارت کے اس پروپیگنڈے کو تقویت دیتا ہے جو پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

محسن داوڑ کی زبان تو پشتونوں کی بات کرتی ہے، لیکن ان کے تانے بانے بھارت سے جا ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ پشتون شناخت کی سیاست ہے یا قومی غداری؟ کیا انہیں بھارت کے بیانیے کو پشتونوں کے نام پر فروغ دینے کے لیے کسی قیمت پر خریدا گیا ہے؟

محسن داوڑ کا الزام ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک دھوکہ تھی۔ کیا وہ یہ بات ان شہداء کی ماؤں کو کہہ سکتے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے وطن پر قربان کیے؟ کیا وہ ان پشتون نوجوانوں کو دیکھتے ہیں جنہوں نے افواج پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف لڑائی لڑی؟

پشتون پاکستان کا فخر ہیں، کوئی مہرہ نہیں جنہیں سیاسی اداکار غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے استعمال کریں۔ محسن داوڑ جیسے لوگ نہ تو پشتونوں کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی پاکستان کے۔ ان کی پالیسیوں کا مقصد نہ ترقی ہے نہ انصاف، بلکہ محض انتشار ہے۔ اور انتشار دشمن کا سب سے پرانا ہتھیار ہے۔

اشرف غنی جیسے مفرور سے ملاقات سفارت کاری نہیں، بلکہ ایسے افراد سے سازباز ہے جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے عالمی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داوڑ کس کے لیے کام کر رہے ہیں؟ ان کا ہدف پاکستان ہے یا وہ طاقتیں جو پاکستان کے خلاف صف آرا ہیں؟

محسن داوڑ کی سیاست کا مقصد انصاف کا حصول نہیں بلکہ فتنہ، بدامنی اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ وہ جس آواز کو پشتونوں کی نمائندہ کہتے ہیں، درحقیقت وہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف استعمال ہونے والی آواز ہے۔

پشتون عوام نے ہر مشکل وقت میں ریاست پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی وفاداری ثابت کی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دیں۔ لیکن محسن داوڑ ان قربانیوں کو بھی جھٹلا کر دشمن کے بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ خود پشتون قوم کے ساتھ بھی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

یہ دعویٰ کرنا کہ پاکستان نے پشتونوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا، حقائق کے برعکس ہے۔ خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا میں گزشتہ دہائی کے دوران ہونے والی ترقی، انفراسٹرکچر کی تعمیر، تعلیمی اداروں کا قیام، اور سیکیورٹی کی بحالی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست پاکستان نے پشتون عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔

داوڑ کے بیانات اور اقدامات دراصل ان غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ دیتے ہیں جو پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ وہ اندرونی طور پر خلفشار پیدا کر کے دشمن کے مقاصد کی تکمیل میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ کردار کسی سیاسی کارکن کا نہیں بلکہ ریاست دشمن عناصر کا ہوتا ہے۔

اگر محسن داوڑ واقعی پشتونوں کے خیر خواہ ہوتے تو وہ قومی اداروں کو کمزور کرنے کے بجائے ان سے شراکت داری کرتے۔ وہ ترقیاتی منصوبوں کے حق میں آواز بلند کرتے، نہ کہ پاکستان کے خلاف۔ لیکن ان کی سیاست کا مرکز بھارت کا بیانیہ ہے، نہ کہ پاکستانی پشتونوں کی فلاح۔

اصل پشتون وہ ہیں جو پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، جو ریاست کے دشمنوں کا راستہ روکتے ہیں، جو سچ اور حق کی خاطر اپنی جان تک قربان کرتے ہیں۔ محسن داوڑ جیسے افراد ان عظیم پشتونوں کی توہین ہیں جنہوں نے پاکستان کی بقا کے لیے اپنے خون کا نذرانہ دیا۔

پاکستان کے خلاف چلنے والی اس ذہنی اور نظریاتی جنگ میں محسن داوڑ جیسے افراد دشمن کے بیانیے کو فروغ دے کر ریاست کی سلامتی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے عزائم کو پہچاننا ہوگا، ان کے بیانیے کو رد کرنا ہوگا، اور قوم میں اتحاد، شعور اور بیداری کو فروغ دینا ہوگا۔

یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایسے عناصر کو بے نقاب کریں جو دشمن کی زبان بول کر ہمیں اندر سے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اصل وفاداری وہ ہے جو ریاست کی بہتری اور قومی وحدت کو مقدم رکھے، نہ کہ بیرونی طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کو۔

پشتون پاکستان کا وقار ہیں، انہیں سیاست کی بساط پر مہرے بنانا سب سے بڑی غداری ہے اور داوڑ کی سیاست اسی غداری کی عملی تصویر ہے۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔