بنیان مرصوص کی چپیڑ سے پڑھنے والی بھارت کے چہرے پر سوجن ابھی ڈھلی ہی نہیں تھی کہ اوپر سے ایک اور چپیڑ پڑ گئی اور چہرے کا بو تھا ایسا سوجھ گیا ہے کرانے کی بجائے چیخوں کی اواز نکل رہی ہے ہوا یوں کہ
گزشتہ روز ہی پاکستان کو اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی (Counter-Terrorism Committee – CTC) کا نائب صدر منتخب کیا گیا ہے، جو کہ پاکستان کی سفارتی کامیابی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کا اعتراف ہے۔
CTC
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت قائم کی گئی ایک کمیٹی
ہے، جس کا مقصد رکن ممالک کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کی نگرانی اور ان میں تعاون فراہم کرنا ہے۔ یہ کمیٹی رکن ممالک کو تکنیکی مدد، پالیسی رہنمائی، اور دہشت گردی کے خلاف عالمی اقدامات میں ہم آہنگی فراہم کرتی ہے۔
نائب صدر کا عہدہ CTC میں ایک اہم انتظامی اور مشاورتی کردار رکھتا ہے۔ نائب صدر کمیٹی کے اجلاسوں کی صدارت میں معاونت کرتا ہے، پالیسی سازی میں حصہ لیتا ہے، اور رکن ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ یہ عہدہ اس بات کا مظہر ہے کہ متعلقہ ملک عالمی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات میں فعال اور مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان کی کامیابی کی اہمیت کا اندازہ اس اعزاز سے ہوتا ہے کیا عالمی سطح پر پاکستان کو ان سے داد دہشت گردی ایک اہم اور فعال ترین ملک تسلیم کر لیا گیا ہے چنانچہ پاکستان کا CTC کا نائب صدر منتخب ہونا اس کے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی کا ثبوت ہے۔ یہ کامیابی اس وقت حاصل ہوئی ہے جب کہ بھارت مسلسل پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ بھارت نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے خلاف مہم چلائی، جس میں اسے "دہشت گردی کا عالمی مرکز” قرار دیا گیا ۔
پاکستان پر حملہ اور ہونے سے پہلے بھارت میں ائی ایم ایف کو دو خطوط لکھے تھے اور کہا تھا کہ پاکستان کو قرضہ فراہم نہ کیا جائے کیونکہ یہ قرضہ صحیح ٹھکانوں پر خرچ نہیں ہوتا بلکہ دہشت گردوں کی معاونت کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اور پاکستان یہ قرضہ واپس لوٹانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ بھارتی وزیراعظم مودی سے پہلے پاکستان کے لیڈر عمران خان نیازی نے ائی ایم ایف کو تین خطوط اپنی پارٹی کی طرف سے بھجوائے تھے اور ائی ایم ایف کے دفتر کے سامنے پارٹی کے کارکنوں سے مظاہرہ بھی کیا تھا کہ پاکستان کو قرضہ فراہم نہ کیا جائے مودی نے تو صرف ایک ہی خط لکھا تھا ابھی چند روز پہلے مودی نے ورلڈ بینک سے بھی ایسے ہی مطالبہ کیا اور کہا کہ پہلے پاکستان سے حساب لیا جائے گا تو یہ رقم کہاں خرچ کرے گا لیکن مودی کو ہر جگہ بنیان مخصوص کا ہی سامنا کرنا پڑا جب کہ کینیڈا کے واقعے کے علاوہ بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے اور بہت سے واقعات عالمی سطح پر منظر عام پر ائے ہیں گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ
ایران نے تین بھارتی شہریوں کی پراسرار گمشدگی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک غیر معمولی اقدام میں اپنی سرزمین پر سرگرم "غیر قانونی بھارتی ایجنسیوں” کے بارے میں برملا خبردار کیا ہے۔جس پر ایرانی سفارت خانے کا سرکاری بیان اس طرح ہے کہ صرف گمشدہ افراد کے بارے میں فکرمندی تک محدود نہیں۔ اس میں درپردہ اعتراف موجود ہے کہ اس کی حدود میں بھارتی خفیہ اداروں سے وابستہ عناصر سرگرم ہیں۔ یہ خطے کی ایک طاقت کی جانب سے ایک نادر اعتراف ہے — اس سے قبل ایسی باتیں صرف سرگوشیوں میں کہی جاتی تھیں۔
اگرچہ پاکستان بارہا ان خفیہ سرگرمیوں کی نشان دہی کرتا رہا ہے، خصوصاً سرحدی علاقوں میں، مگر ایران کا کھلے عام اس کا اعتراف کرنا ایک اہم سفارتی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔افغانستان کے سابقہ تجربات کو مدِنظر رکھا جائے تو ایران اب بھارت کے خفیہ نیٹ ورک کو اپنی مشرقی حدود، بالخصوص سیستان-بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں زیادہ سختی سے دیکھ رہا ہے۔
تہران کی جانب سے آنے والا یہ اشارہ یقیناً خوش آئند ہے، لیکن اصل آزمائش تب ہو گی جب وہ ان خفیہ نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے عملی اقدامات کرے گا — خاص طور پر اُن نیٹ ورکس کو، جو پاکستان کی مغربی سرحدوں کے قرب و جوار میں سرگرم ہیں اور ریجن میں طاقت کے غیر متوازن رجحانات کو بڑھا رہے ہیں۔
اگر ایران اپنے انتباہ کو عملی جامہ پہناتا ہے، تو یہ نہ صرف ایک سفارتی موڑ ہو گا بلکہ بھارتی خفیہ اداروں کے لیے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے بھی اب متنازع اور غیر یقینی فضا میں بدل سکتے ہیں۔ یہ اقدام خطے میں بھارت کی غیر روایتی اور بالواسطہ کارروائیوں کے دائرے کو محدود کر سکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے مختلف ممالک میں، خصوصاً امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں، سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی قتل و غارت میں مافیاز اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کو استعمال کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی انٹیلی جنس کارروائیوں کو باقاعدہ ریاستی دائرے سے نکال کر غیر ریاستی عناصر کے ذریعے انجام دیتا ہے — تاکہ بوقتِ ضرورت ان کارروائیوں سے انکار بھی کیا جا سکے۔
ایسے میں غیر جانبدار ثالث قوتوں کا میدان میں آنا نا صرف احتساب کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ چھوٹے ممالک کو بھی تحفظ فراہم کر سکتا ہے تاکہ وہ بڑے اور طاقتور ممالک کی من مانی، قانون شکنی اور جواب دہی سے بچنے کی روش کے خلاف اپنی آواز بلند کر سکیں۔
پاکستان نے بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ بین الاقوامی فورمز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے ۔ پاکستان کی FATF کی گرے لسٹ سے نکلنے کی کامیابی اور اب CTC کا نائب صدر منتخب ہونا اس کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کی عالمی سطح پر توثیق ہے۔ پاکستان کا اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی کا نائب صدر منتخب ہونا نہ صرف بنیان مرصوص کی طرح ایک کراری چپیڑ ہے
بلکہ بھارت کی مذموم عزائم کو ننگا کرنے کی بھی چپیڑ ہے اگر ایسے میں بھارت اف اف کر رہا ہے تو صحیح کر رہا ہے بھارت صرف پاکستان کے ہی پیچھے نہیں لگا ہوا ہے اس کی دہشت گردی کی کاروائیاں دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں جیسا کہ کنیڈا کا واقعہ ہے جہاں خالصتان تحریک کے ایک اہم لیڈر کو سرعام قتل کیا گیا اس کے علاوہ ایران میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے نیٹ ورک کا سراغ ملا ہے
ایران نے تین بھارتی شہریوں کی پراسرار گمشدگی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک غیر معمولی اقدام میں اپنی سرزمین پر سرگرم "غیر قانونی بھارتی ایجنسیوں” کے بارے میں برملا خبردار کیا ہے۔
ایران کا حالیہ بیان صرف گمشدہ افراد کے بارے میں فکرمندی تک محدود نہیں۔ اس میں درپردہ اعتراف موجود ہے کہ اس کی حدود میں بھارتی خفیہ اداروں سے وابستہ عناصر سرگرم ہیں۔ یہ خطے کی ایک طاقت کی جانب سے ایک نادر اعتراف ہے — اس سے قبل ایسی باتیں صرف سرگوشیوں میں کہی جاتی تھیں۔اگرچہ پاکستان بارہا ان خفیہ سرگرمیوں کی نشان دہی کرتا رہا ہے، خصوصاً سرحدی علاقوں میں، مگر ایران کا کھلے عام اس کا اعتراف کرنا ایک اہم سفارتی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
افغانستان کے سابقہ تجربات کو مدِنظر رکھا جائے تو ایران اب بھارت کے خفیہ نیٹ ورک کو اپنی مشرقی حدود، بالخصوص سیستان-بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں زیادہ سختی سے دیکھ رہا ہے۔
تہران کی جانب سے آنے والا یہ اشارہ یقیناً خوش آئند ہے، لیکن اصل آزمائش تب ہو گی جب وہ ان خفیہ نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے عملی اقدامات کرے گا — خاص طور پر اُن نیٹ ورکس کو، جو پاکستان کی مغربی سرحدوں کے قرب و جوار میں سرگرم ہیں اور ریجن میں طاقت کے غیر متوازن رجحانات کو بڑھا رہے ہیں۔
اگر ایران اپنے انتباہ کو عملی جامہ پہناتا ہے، تو یہ نہ صرف ایک سفارتی موڑ ہو گا بلکہ بھارتی خفیہ اداروں کے لیے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے بھی اب متنازع اور غیر یقینی فضا میں بدل سکتے ہیں۔ یہ اقدام خطے میں بھارت کی غیر روایتی اور بالواسطہ کارروائیوں کے دائرے کو محدود کر سکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے مختلف ممالک میں، خصوصاً امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں، سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی قتل و غارت میں مافیاز اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کو استعمال کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی انٹیلی جنس کارروائیوں کو باقاعدہ ریاستی دائرے سے نکال کر غیر ریاستی عناصر کے ذریعے انجام دیتا ہے — تاکہ بوقتِ ضرورت ان کارروائیوں سے انکار بھی کیا جا سکے۔ایسے میں غیر جانبدار ثالث قوتوں کا میدان میں آنا نا صرف احتساب کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ چھوٹے ممالک کو بھی تحفظ فراہم کر سکتا ہے تاکہ وہ بڑے اور طاقتور ممالک کی من مانی، قانون شکنی اور جواب دہی سے بچنے کی روش کے خلاف اپنی آواز بلند کر سکیں۔
18 جون 2023 کو برٹش کولمبیا کے شہر سَری میں واقع گوردوارہ کے باہر سکھ رہنما ہر دیپ سنگھ نجر کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ نجر کینیڈا میں "سکھس فار جسٹس” تنظیم کے سرگرم رکن اور خالصتان تحریک کے حامی تھے۔ بھارت نے انہیں 2020 میں دہشت گرد قرار دیا تھا، جبکہ ان کے حامی انہیں انسانی حقوق کے علمبردار مانتے ہی
ستمبر 2023 میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ ملکی انٹیلیجنس اداروں کے پاس "قابلِ اعتماد شواہد” موجود ہیں جو بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کو نجر کے قتل سے جوڑتے ہیں۔ اس اعلان کے بعد کینیڈا نے بھارت کے ایک اعلیٰ سفارت کار پون کمار رائے کو ملک بدر کر دیا، جن پر الزام تھا کہ وہ کینیڈا میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را” سربراہ تھے
بھارتی وزارتِ خارجہ نے ان الزامات کو "بے بنیاد اور سیاسی محرکات پر مبنی” قرار دیتے ہوئے مکمل طور پر مسترد کر نے کوشش کی جو ناکام رہی۔ بھارت نے الٹا کینیڈا پر الزام عائد کیا کہ وہ خالصتان تحریک کے حامیوں کو پناہ دے رہا ہے جو بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔
مئی 2024 میں کینیڈین پولیس نے نجر کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں تین بھارتی شہریوں کو گرفتار کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں ،بھارت کی ان سرگرمیوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت نے دنیا کو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی ایک عالمی طاقت ہے اور اپنے مفادات کے لیے جو چاہے وہ کر سکتا ہے جیسے کہ دوسری ادمی طاقتیں من مانی کیا کرتی ہیں لیکن پاکستان کی چپڑ دیں اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں یہاں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ
جہاں تک "را” کے اسرائیلی خفیہ ادارے "موساد” سے تعلقات کا سوال ہے، اس بارے میں کوئی مصدقہ سرکاری شواہد دستیاب نہیں ہوا کرتے۔ تاہم، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے اور تربیتی پروگراموں میں تعاون موجود ہے۔ یہ تعلقات خاص طور پر 1990 کی دہائی کے بعد سے مضبوط ہوئے ہیں، جب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل نے بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ کینیڈا میں سکھ برادری میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے،
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts