Nigah

روس کا یوکرین پر ممکنہ ایٹمی حملہ، دنیا بھر کی نظریں روس پر مرکوز ۔

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات کے بارے میں حالیہ واقعات اور روس کی جانب سے جاری کیے گئے بیانات سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ روس یوکرین پر ایٹمی حملہ کر سکتا ہے۔

روس نے حال ہی میں اپنی جوہری ہتھیاروں کی پالیسی میں تبدیلی کی ہے، جس کے مطابق اگر کوئی ملک جو خود ایٹمی طاقت نہیں ہے لیکن کسی ایٹمی طاقت کی مدد سے روس پر حملہ کرتا ہے، تو روس اسے مشترکہ حملہ سمجھے گا

اور جوہری ہتھیاروں سے جواب دے سکتا ہے۔ یہ پالیسی خاص طور پر یوکرین کے حوالے سے اہم ہے،

کیونکہ یوکرین کو امریکہ اور نیٹو ممالک کی طرف سے فوجی امداد حاصل ہے۔ یوکرین نے حال ہی میں روس کے اندرونی علاقوں میں واقع فضائی اڈوں پر کئی بڑے حملے کیے ہیں،

جن میں 40 سے زائد روسی اسٹریٹجک بمبار طیارے تباہ ہوئے ہیں۔ ان حملوں کو "آپریشن سپائیڈر ویب” کا نام دیا گیا ہے اور یہ یوکرین کی جانب سے اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔

روس یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے اس حالیہ حملے کو خطر ناک اور شدید ترین قرار دیا جا رہا ہے
میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرین کی خفیہ ایجنسی
” ایس بی یو” نے اس کارروائی کو سپائیڈر ویب (مکڑی کا جالا) کا نام دیا تھا اور اس کی نگرانی خود یوکرینی صدر زیلنسکی کررہے تھے

بی بی سی کے مطابق یہ حملے ڈیڑھ سال کی منصوبہ بندی کے بعد کئے گئے ہیں

اس حملے کی مبینہ ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈرون حملوں کے بعد کس طرح آگ کے شعلوں نے روسی جنگی طیاروں کو آپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے

رپورٹس کے مطابق یہ ڈرون کو لکڑی کے موبائل کیبنز میں چھپایا گیا تھا جنکی چھتیں آٹو میٹک ہوتی ہیں اور کچھ فاصلے سے کھولا جا سکتا ہے
یہ کیبنز ان ٹرکوں پر رکھے گئے تھے جنہیں روسی فضائی اڈوں کے قریب پہنچایا گیا اور پھر مناسب وقت پر حملہ کر دیا

روس نے ان حملوں کو "دہشت گردانہ کارروائی” قرار دیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ اس کا جواب ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے دے۔

قارئین محترم ا

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کئی بار جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی ہے، خاص طور پر جب روسی فوج کو یوکرین میں ناکامی کا سامنا ہوا ہے۔

پوتن نے کہا ہے کہ اگر روس کو اپنی سلامتی یا علاقائی سالمیت کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو وہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔

ادھر جرمنی کے ڈیفنس چیف جنرل کارسٹن بریور کا کہنا ہے کہ مغربی فوجی اتحاد نیٹو میں شامل ممالک کو اگلے 4 سال میں روس کے ممالک حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔*

برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل کارسٹن بریور کا کہنا تھا روس ہر سال سینکڑوں ٹینک تیار کر رہا ہے جس میں سے کچھ 2029 یا اس سے پہلے نیٹو میں شامل بالٹک ممالک پر حملے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیٹو میں شامل ممالک ہنگری اور سلوواکیہ کی جانب سے یوکرین میں جنگ کے حوالے سے اختلاف رائے کے باوجود متحد ہیں۔

جنرل کارسٹن کا کہنا تھا نیٹو کو اس وقت شدید خطرات لاحق ہیں، ایسے خطرات جو میں نے اپنی 40 سالہ سروس میں نہیں دیکھے، روس اپنی فورسز کی طاقت کو بہت بڑے پیمانے پر بڑھا رہا ہے اور ہر سال 1500 جنگی ٹینک تیار کر رہا ہے اور روس کا ہر ٹینک یوکرین کے خلاف جنگ میں نہیں جا رہا۔

جرمن ڈیفنس چیف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اسی طرح روس نے 2024 میں 152 ایم ایم کے 40 لاکھ آرٹلری میونیشن تیار کیے جو سارے یوکرین کے خلاف جنگ میں استعمال نہیں ہو رہے، یہ سب ذخیرہ نیٹو پر ممکنہ حملے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

امریکہ اور مغربی ممالک نے روس کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر روس کو یوکرین میں شدید فوجی دباؤ کا سامنا ہو یا اسے شکست کا خدشہ ہو، تو وہ ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔

تاہم، چین جیسے اہم اتحادیوں کی عدم حمایت بھی روس کے لیے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں جنگ بندی کے مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان تصادم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ تناؤ جاری رہا، تو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔

ادھر برطانیہ کے وزیر دفاع جان ہیلی نے ماسکو کو پیغام دیا ہے کہ وہ روس سے لڑنے کے لئے تیار ہیں انکے اس پیغام کے بعد
تمام نیٹو ممالک نے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے

روس-یوکرین جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ حقیقی ہے، خاص طور پر روس کی جانب سے جاری کی گئی نئی جوہری پالیسی اور یوکرین کے بڑے حملوں کے بعد۔ اگرچہ بین الاقوامی دباؤ اور چین جیسے اتحادیوں کا رویہ روس کو روک سکتا ہے، لیکن صورتحال انتہائی نازک ہے اور عالمی برادری کو اس پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

Author

  • انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔