روس پر یوکرینی حملہ کے بعد ماسکو سے جس طرح کے اشارے مل رہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ پیوٹن نے یوکرین کو عبرت کی مثال بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے
روس نے دنیا بھر سے اپنے سفیر بریفنگ کے لئے طلب کر لئے ہیں اور اس دوران ملٹری ری ایکشن کا پیکج بھی تیاری کے مراحل میں ہے
یہ پیکج ایسا ہوگا کہ آئندہ دنیا کی کوئی طاقت روس کے سٹریٹیجک اثاثوں کی طرف جانے کا تصور بھی نہیں کرپائے گی۔
صدر پیوٹن نے ٹرمپ کو بتا دیا ہےکہ وہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کرنے کی کوئی گارنٹی نہیں دیتے لیکن ایٹمی ہتھیار استعمال ہونے کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔
اگر ایٹمی ہتھیار استعمال نہ ہوئے تو ردعمل کا کنونشنل پیکج ہوگا۔ہفتہ دس دن تک جاری رہنے والا پیکج ہوسکتا ہے مگر اس کے بعد یوکرین کے اہم مراکز کی جگہ ملبے کے سوا شاید ہی کچھ بچے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ رشین انٹیلی جنس نے پتہ چلا لیا ہے کہ یوکرینی حملے کے پیچھے کون سا ملک اور اسکی خفیہ ایجنسی تھی دیکھتے ہیں آنے والے دن کیا حالات لاتے ہیں !
قارئین محترم ا
آپ کے ساتھ ٹکر کارلسن کے پوتن کیساتھ کئے گئے مشہور زمانہ انٹرویو کا ایک حصہ شئیر کر رہا ہوں۔ آپ کو یوکرائن مسلے کی کافی حد تک سمجھ آ جائے گی۔
ٹکر کارلسن:
نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائن کو کس نے تباہ کیا؟
ولادیمیر پوتن:
(مسکرا کر) آپ نے۔
ٹکر:
میں یقیناً نہیں تھا کیونکہ میں تو اس دن مصروف تھا۔
کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟
پوتن:
آپ کا ذاتی طور پر کچھ لینا دینا نہیں ہوگا،
لیکن جو ادارے آپ کے ملک میں ایسے کام کرتے ہیں، جیسے سی آئی اے، ان کے بارے میں تو سوال اٹھتا ہے۔
ٹکر:
کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ امریکہ، نیٹو یا CIA نے یہ کیا؟
پوتن:
میں کھل کر الزام نہیں لگاؤں گا۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ایسے واقعات میں ہمیشہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔
لیکن اس واقعے میں صرف فائدے کی بات نہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اتنی بڑی کاروائی کی صلاحیت کا کے پاس ہے۔ کیونکہ کئی ملک یہ کرنا چاہ رہے ہوں گے، مگر ہر کوئی بالٹک سمندر کی تہہ میں جا کر ایسا دھماکہ نہیں کر سکتا۔
تو ہمیں ان دونوں باتوں پر غور کرنا ہوگا کہ کس کا مفاد تھا، اور کس کے پاس یہ سب کرنے کی ٹیکنالوجی اور صلاحیت بھی تھی۔
ٹکر:
مگر یہ تو بہت بڑی تباہی تھی، دنیا میں صنعتی دہشت گردی کی سب سے بڑی مثال، اور ماحولیات کے لحاظ سے بھی ایک تباہ کن واقعہ۔
تو اگر آپ کے پاس ثبوت ہیں کہ مغرب یا امریکہ نے یہ کیا ہے، تو آپ وہ دنیا کے سامنے لا کر کیوں نہیں دکھاتے؟ اس سے آپ کو ایک زبردست پراپیگنڈا جیت حاصل ہو جاتی۔
پوتن:
پراپیگنڈا کی جنگ میں امریکہ سے جیتنا آسان نہیں ہے کیونکہ امریکہ عالمی میڈیا پر قابض ہے، یہاں تک کہ بہت سا یورپی میڈیا بھی ان ہی کے اثر میں ہے۔ یورپ کے بڑے بڑے میڈیا گروپوں کے پیچھے آخر میں امریکی مالیاتی ادارے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یعنی جو نظر آتا ہے، وہ صرف پردہ ہے۔
ہم اگر اپنے ذرائع سامنے لائیں بھی تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو کہانی امریکہ سناتا ہے، وہی دنیا سنتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ میڈیا کی جنگ لڑنا بہت مہنگا کام ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ اصل میں کیا ہوا۔ یہاں تک کہ خود امریکہ کے بعض تجزیہ کار بھی یہ بات مانتے ہیں۔
ٹکر:
چلیے مان لیا، مگر ایک بات میری سمجھ سے باہر ہے۔
آپ نے جرمنی میں کافی وقت گزارا ہے۔ جرمن حکومت جانتی ہے کہ یہ سب اُن کے اپنے نیٹو اتحادیوں نے کیا جس سے اُن کی معیشت تباہ ہو گئی، تو وہ کیوں چپ بیٹھے ہیں؟ بولتے کیوں نہیں؟
پوتن:
یہ بات مجھے بھی حیران کرتی ہے۔ آج کی جرمن قیادت قومی مفاد کے بجائے مغربی اتحاد کے مفاد کے تحت فیصلے کر رہی ہے۔
ورنہ عقل کہتی ہے کہ جس نے آپ کی معیشت کو نقصان پہنچایا اس کے خلاف آواز تو اٹھائیں۔
دیکھیں، نارڈ اسٹریم 1 مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، لیکن نارڈ اسٹریم 2 کی ایک پائپ لائن اب بھی صحیح سلامت ہے۔ اس سے یورپ کو گیس فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہم تو تیار بیٹھے ہیں۔ لیکن جرمنی وہ پائپ لائن کھولنے کو تیار نہیں۔
جرمنی خود تو اُسے نہیں کھولتا۔ پولینڈ نے بھی راستہ بند کر دیا ہے، حالانکہ پولینڈ جرمنی سے مالی امداد لیتا ہے، یورپی فنڈز سے فایدہ حاصل کرتا ہے، اور ان فنڈز میں سب سے زیادہ پیسے دینے والا ملک کون ہے؟ جرمنی۔
تو جرمنی پولینڈ کو کھلاتا ہے اور پولینڈ اسکی گیس کا راستہ بند کر دیتا ہے۔ کیا یہ بات سمجھ آتی ہے؟
اب یوکرین کی بات کریں، جسے جرمنی ہتھیار بھی دے رہا ہے اور اربوں یورو کی امداد بھی۔ امریکہ کے بعد سب سے زیادہ امداد جرمنی دیتا ہے۔
یوکرین سے دو گیس لائنیں گزرتی ہیں، ایک بند کر دی، دوسری کھلی ہے۔
ہم کہتے ہیں، بھائی اُس سے گیس لے لو۔ مگر وہ نہیں لیتے۔
جرمنی کیوں نہیں کہتا کہ:
"ہم تمھیں اتنے پیسے اور ہتھیار دے رہے ہیں، تو کم از کم ہمارے لیے گیس کا والو تو کھولو؟”
ہم یورپ میں مہنگی ترین گیس خرید رہے ہیں، جس سے ہماری صنعت تباہ ہو گئی ہے، ہماری معیشت زیرو پر آ گئی ہے۔
یہ سب دیکھ کر بھی جرمن قیادت کچھ نہیں کہتی۔
کیوں؟
ان سے پوچھیں، ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، یہ شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔ یہ سب بے حد نالائق لوگ ہیں۔
میری رائے ہے کہ یہ جنگ روس اور یوکرین کے درمیان نہیں بلکہ نیٹو اور امریکہ کی طرف سے روس کے خلاف ایک مکمل اور منصوبہ بند جنگ ہے۔ نارڈ اسٹریم کی تباہی، یورپ کو روسی گیس سے کاٹنا، اور امن کے جھوٹے پیغامات، سب کچھ ایک بڑے گیم پلان کا حصہ ہے۔ امریکہ اور نیٹو مکمل طور پر شامل ہیں، اور اگر کوئی صلح یا مذاکرات کی بات کرتا ہے تو وہ صرف دنیا کو دھوکہ دینے اور روس کو کمزور کرنے کی چال ہے۔
ٹرمپ ہو یا سٹارمر، جرمنز ہو۔ یا فرینچ، ہر کوئی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ روس اور چین یہ بات جانتے ہیں۔ وہ اچھی طرح یہ جانتے ہیں کہ انڈیا اس میں کیا ڈرامہ رچا رہا ہے۔ روسی تیل سستے داموں انڈین روپوں میں خرید کر یورپ کو مہنگا بیچ رہا ہے۔ سب ڈرامہ ہو رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے پاکستان انڈیا لڑائی میں انڈیا کا اسی طرح ساتھ دیا ہے جسطرح انڈیا نے روس کا ساتھ دیا تھا۔ بس بات چیت کی حد تک۔
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔