Nigah

طالبان سپریم کمانڈر کا فتویٰ یا امن کا پیغام؟

taliban

افغانستان کی سرزمین ایک مرتبہ پھر تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ مگر اس بار نہ بندوقوں کی گرج ہے اور نہ ہی دھماکوں کی صدائیں۔ اس بار بات ہو رہی ہے ایک فتویٰ کی، ایک ایسے بیان کی جس نے پاک افغان تعلقات میں ایک نئی امید پیدا کر دی ہے۔ افغان طالبان کے سپریم کمانڈر، شیخ الحدیث مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے حال ہی میں ایک واضح اور دو ٹوک فتویٰ جاری کیا کہ پاکستان کے خلاف جہاد غیر شرعی ہے۔ اس بیان نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے بادلوں کو کچھ
چھانٹا ہے بلکہ پورے خطے میں نئی سفارتی سرگرمیوں کو بھی جنم دیا ہے۔
ملا ہیبت اللہ اخونزادہ 2016 میں طالبان کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے نسبتاً پردہ نشین رہے، شاذ و نادر ہی عوامی بیانات دیتے ہیں۔ ان کا حالیہ بیان کابل، قندھار اور دیگر صوبوں کی بڑی مساجد میں جمعہ کے خطبوں کے ذریعے عام کیا گیا جو طالبان کے سرکاری نظریاتی مؤقف کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے خلاف لڑنا نہ جہاد ہے،نہ ہی افغان حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاکستان میں متعدد دہشتگرد حملوں کے تانے بانے افغانستان سے جڑتے پائے گئے، خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے اس بیان کا محتاط خیر مقدم کیا، اور کہا کہ "ہم طالبان کی قیادت کی طرف سے کسی بھی ایسے بیان کو خوش آئند سمجھتے ہیں جو دونوں برادر ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کو کم کرنے میں مدد دے۔” سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فتویٰ بظاہر ٹی ٹی پی کو غیر واضح پیغام دیتا ہے کہ ان کی کارروائیوں کو افغان قیادت کی حمایت حاصل نہیں، جو پاکستان کے لیے ایک سفارتی کامیابی تصور ہو سکتی ہے۔
ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا طالبان واقعی ٹی ٹی پی سے الگ ہو چکے؟ پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو جواب ملتا ہے کہ
ماضی میں طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات محض نظریاتی نہیں بلکہ عسکری اور خاندانی بنیادوں پر بھی مستحکم رہے ہیں۔ مگر حالیہ مہینوں میں افغان طالبان پر بین الاقوامی اور علاقائی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی دہشتگرد تنظیم کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیں۔
افغان وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق افغان عبوری حکومت اب عملی طور پر ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو افغانستان کی سرزمین کو ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کے سپریم کمانڈر کا یہ فتویٰ صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے اہم پیغام ہے۔ بھارت، جو افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی سازشوں میں سرگرم ہے،اب ایک محدود میدان دیکھ رہا ہے۔چین پہلے ہی سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کر چکا ہے، افغانستان کے معدنی وسائل میں دلچسپی رکھتا ہے۔ چین کے لیے افغان سرزمین کا استحکام بنیادی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اگر وہاں سے دہشتگردی کا عنصر ختم ہوتا ہے تو وہ اپنے "بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبے کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ ایران بھی افغانستان میں استحکام چاہتا ہے تاکہ مغربی افغانستان میں موجود شیعہ برادری کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔اگر چہ ملا ہیبت اللہ کا بیان ایک مثبت پیش رفت ہے، مگر یہ کافی نہیں۔ پاکستان کو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک جامع افغان پالیسی تشکیل دینی ہو گی۔یہ پالیسی صرف سیکیورٹی یا اسٹیبلشمنٹ کے دائروں تک محدود نہ ہو بلکہ سفارتکاری، اقتصادی تعاون، اور عوامی رابطے کے عناصر کو بھی شامل کرے۔ یہ فتویٰ دراصل پاکستان کے لیے ایک ‘ونڈو آف آپرچونیٹی’ ہے۔ اگر بروقت اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو یہ موقع ایک بار پھر ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔
ایک اور اہم پہلو جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ آیا یہ فتویٰ مستقل پالیسی کی نمائندگی کرتا ہے یا یہ صرف وقتی دباؤ کے تحت دیا گیا ایک بیان ہے۔ طالبان ماضی میں متضاد بیانات کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ مگر چونکہ اس بیان کو مذہبی حیثیت دی گئی ہے، اور اسے "غیر شرعی” قرار دیا گیا ہے، اس لیے اس کی اہمیت اور استحکام کو معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔ افغان طالبان کی قیادت کی طرف سے پاکستان مخالف جنگ کو غیر شرعی قرار دینا بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن اس بیان کی اصل حیثیت کا اندازہ اس وقت ہو گا جب ہم زمینی حقائق میں تبدیلی دیکھیں گے۔ اگر افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بند ہوتی ہیں، اور بارڈر پر سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی ہے، تب ہی اس فتویٰ کو ایک تاریخی تبدیلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اس موقع پر دانشمندی، حکمت، اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر خطے میں دیرپا امن، استحکام اور ترقی کی بنیاد رکھی جائے۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔