بین الاقوای تعلقات میں کامیابی صرف عسکری طاقت سے نہیں، بلکہ سفارتی حکمت، قیادت کی بصیرت، اور قومی بیانیے کی مضبوطی سے حاصل کی جاتی ہے۔ پاکستان نے حالیہ ہفتوں میں دنیا بھر کے اہم ممالک میں جو مؤثر سفارتی سرگرمیاں انجام دی ہیں، وہ ایک نئے، پُراعتماد اور فعال پاکستان کی عکاسی کرتی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ایران، ترکیہ، آذربائیجان اور سعودی عرب کے کامیاب دورے نہ صرف سفارتی سطح پر غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ یہ پاکستان کی عالمی ساکھ اور اس کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سول اور عسکری قیادت نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ بین الاقوامی دورے کیے، مشترکہ پیغامات دیے اور ایک مربوط قومی بیانیہ دنیا کے سامنے رکھا۔ اس ہم آہنگی نے نہ صرف دنیا کے سامنے پاکستان کا متحد اور پرعزم چہرہ پیش کیا، بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان داخلی استحکام حاصل کر چکا ہے اور اب وہ ایک مؤثر خارجہ پالیسی پر یکسوئی سے عمل پیرا ہے۔
وزیر اعظم اور آرمی چیف کا ایران کا دورہ کئی حوالوں سے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں کچھ سرحدی واقعات کی بنا پر تناؤ پایا جاتا تھا لیکن اس دورے میں جس گرمجوشی اور برادرانہ ماحول میں ملاقاتیں ہوئیں وہ اس بات کا عندیہ ہے کہ دونوں ملک مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک صفحے پر آچکے ہیں۔
ایرانی قیادت نے پاکستانی وفد کا بھرپور استقبال کیا اور باہمی تجارتی راہداری، سرحدی سلامتی، دہشت گردی کے خاتمے اور توانائی کے شعبے میں تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی پاکستان کی سالمیت، خودمختاری اور عوامی استقامت کو سراہا، جو دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات کا مظہر ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے پاکستانی قیادت کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں دفاع، معیشت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ خاص طور پر دفاعی پیداوار اور عسکری تربیت میں اشتراک کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان اور ترکیہ کے مابین باہمی فوجی مشقوں، مشترکہ اسلحہ سازی اور بحری سلامتی میں تعاون سے نہ صرف پاکستان کی دفاعی صلاحیت بڑھے گی بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بھی برقرار رہے گا۔
ترک صدر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کے لیے مرکزی کردار ادا کر رہا ہے اور دنیا کو اس کی کوششوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ انہوں نے بھارت کے کشمیر پر غیر قانونی قبضے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کا اعادہ کیا۔
آذربائیجان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ہمیشہ گرم جوشی رہی ہے، لیکن اس دورے نے ان تعلقات کو عملی معاشی شراکت داری میں تبدیل کر دیا۔ دونوں ممالک نے توانائی، گیس، ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے شعبوں میں مشترکہ منصوبوں پر دستخط کیے۔
آزر بائیجان نے پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کاںھی اعلان بھی جب بھی گی
پاکستانی قیادت نے آذری ہم منصب کو سی پیک میں شامل ہونے کی دعوت دی، جس سے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کی رسائی مزید آسان ہو جائے گی۔
یہ دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان نہ صرف مغرب اور خلیجی ممالک بلکہ وسطی ایشیاء میں بھی اپنی حیثیت مستحکم کر رہا ہے، جو خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہے۔
یہ سفارتی فتوحات صرف تعلقات کی بحالی یا سرمایہ کاری تک محدود نہیں بلکہ اس کا سب سے بڑا ثمر یہ ہے کہ دنیا نے پاکستان کے مؤقف کو سننا شروع کر دیا ہے۔ خصوصاً مسئلہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف کو اب زیادہ توجہ اور حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ ان دوروں کے دوران مختلف عالمی رہنماؤں نے بھارتی مظالم کی مذمت کی اور کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی تائید کی۔
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب بھارت کی حکومت دنیا کو باور کرانے میں لگی ہوئی تھی کہ کشمیر ایک داخلی مسئلہ ہے۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ پاکستان کی مؤثر سفارت کاری نے عالمی سطح پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک انسانی اور بین الاقوامی مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کی ان مسلسل سفارتی کامیابیوں نے بھارتی قیادت کو پریشان کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا اور اپوزیشن جماعتیں کھلے عام نریندر مودی کی خارجہ پالیسی پر تنقید کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی صرف تصویری ملاقاتوں، سوشل میڈیا تشہیر اور داخلی شدت پسندی پر توجہ دے رہا ہے، جبکہ پاکستان عالمی سطح پر عملی اقدامات کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔
بھارت کے اندر بھی یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ مودی حکومت سفارتی میدان میں تنہائی کا شکار ہو رہی ہے اور پاکستان ایک پُرامن، ترقی پسند اور متحرک ملک کے طور پر اپنی ساکھ بحال کر چکا ہے۔
برکس تنظیم بھی بھارت سے جان چھڑانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور انڈیا کی جگہ انڈونیشیا کو برکس میں شامل کرنے کی سفارتی کاوشوں کا آ غا ہو جکا ہے
پاکستان کی حالیہ سفارتی سرگرمیاں ایک نئے دور کا آغاز ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر نیت خالص، حکمت عملی واضح اور قیادت متحد ہو تو پاکستان نہ صرف اپنے دشمنوں کے عزائم ناکام بنا سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر مؤثر کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔
یہ معرکہ حق صرف سفارت کاری میں کامیابی نہیں، بلکہ قومی وقار، اسلامی اخوت، علاقائی امن اور عالمی قیادت کی طرف ایک جرات مندانہ قدم ہے۔اب یہ ہم سب پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے کہ اس مثبت پیش رفت کو برقرار رکھا جائے، تاکہ پاکستان دنیا میں باوقار، پُرامن اور خود مختار ملک کے طور پر اپنی شناخت مزید مستحکم کر سکے
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔