Nigah

مودی کے بھارت میں اقلیتوں کے لیے تنگ ہوتی زمین

modi
[post-views]

بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک "سیکولر” ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے، آج نریندر مودی کی قیادت میں ایک ایسے راستے پر گامزن ہے جہاں مذہبی اقلیتوں کے لیے زندگی دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں کے لیے ریاستی ادارے اور اکثریتی سماج خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بھارتی ریاست منی پور میں جاری فسادات نے اس تلخ حقیقت کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔
منی پور بھارت کی شمال مشرقی ریاست ہے، جو نسلی، مذہبی اور ثقافتی تنوع رکھتی ہے۔ یہاں دو بڑے گروہ بستے ہیں۔ میئتی (Meitei) جو اکثریت میں ہندو ہیں، اور کُکی زو (Kuki-Zo) جو زیادہ تر عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں برادریوں میں تاریخی طور پر کچھ کشیدگی رہی ہے مگر مودی حکومت کے بعض پالیسی فیصلوں نے ان میں شدید تصادم پیدا کر دیا ہے۔
2023 میں منی پور حکومت نے میئتی برادری کو "قبائلی اقلیت” کا درجہ دینے کی کوشش کی تاکہ وہ بھی سرکاری کوٹے اور زمین کے حقوق جیسے فوائد حاصل کر سکیں۔ اس فیصلے نے کُکی زو برادری میں یہ احساس پیدا کیا کہ ان کا وجود، زمین اور شناخت خطرے میں ہیں۔ جس کیخلاف احتجاج شروع ہوا، جسے حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً یہ احتجاج خونریز فسادات میں تبدیل ہوگیا۔
فسادات میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ساٹھ ہزار سے زائد بے گھر ہوگئے۔ ان فسادات میں پانچ سو گاؤں تباہ ہوئے جبکہ تین سو سے زیادہ چرچ نذرِ آتش کئے گئے۔ متعدد خواتین کی اجتماعی بے حرمتی
کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں بھارتی فورسز کی موجودگی میں خواتین کو گھسیٹا جارہا ہے۔ جبکہ حکومتی خاموشی نے ان واقعات پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔
نریندر مودی جو اپنے طور پر خود کو دنیا کا طاقتور لیڈر قرار دیتے ہیں، اس پوری صورتحال پر مکمل خاموش ہیں۔ نہ انہوں نے کسی مظلوم کا حال پوچھا۔ نہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور نہ کوئی تحقیقاتی کمیشن بنایا۔ بھارت کی اعلیٰ عدالتیں اور میڈیا بھی اکثر اس بحران کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں۔ اس رویے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت کے نزدیک اقلیتوں کی جان و مال کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
منی پور کے فسادات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی برادری عیسائی ہے۔ ان کے گھروں، عبادت گاہوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ اقدامات اس منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جس کے تحت بھارت کو صرف ہندو ریاست بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پادریوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، عیسائی لڑکیوں کا اغوا اور زیادتی کا نشانہ بنانا اور چرچ کی زمینوں پر قبضہ کرنے جیسے واقعات بی جے پی کے حمایتی انتہا پسند ہندو گروہوں جیسے وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ہاتھوں انجام پائے، جو ریاستی اداروں کی مکمل پشت پناہی سے کام کرتے ہیں۔
بی جے پی کا نظریاتی ڈھانچہ "ہندوتوا” پر قائم ہے۔ جو بھارت کو صرف ہندو مذہب کے پیروکاروں کا وطن تصور کرتا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا مشترکہ مقصد بھارت کی شناخت کو مکمل طور پر ہندومت سے وابستہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو گائے کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔عیسائی مشنریوں پر تبدیلی مذہب کا جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے اور سکھوں کو علیحدگی پسند قرار دے کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اگرچہ منی پور میں فسادات کا مرکز عیسائی برادری ہےمگر بھارت کے دیگر حصوں میں مسلمانوں کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
2014 سے تاحال گروہی تشدد کے 90 فیصد واقعات بی جے پی حکومت میں ہوئے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری خصوصاً امریکہ، یورپ اور اقوامِ متحدہ اس صورتحال پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ شاید بھارت کی معاشی طاقت، چین کے خلاف اس کا استعمال اور بڑے عالمی معاہدوں میں اس کی اہمیت ان کے ضمیر کو دبا دیتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا معاشی مفادات انسانی حقوق سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں؟ کیا مغربی اقدار صرف لفظوں تک محدود رہ گئی ہیں؟
پاکستان نے منی پور کے فسادات سمیت بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے کئی بار اقوام متحدہ اور او آئی سی کے پلیٹ فارم پر بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اقلیتوں کے تحفظ کا عالمی مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ بھارت ایک جمہوری ریاست کے لبادے میں فاشزم کا قلعہ بن چکا ہے۔
منی پور میں جاری فسادات صرف ایک ریاستی بحران نہیں بلکہ پورے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری منظم منصوبے کی عکاسی کرتے ہیں۔ بی جے پی کا نیا بھارت دراصل ہندو قوم پرست ریاست بن چکا ہے جہاں اقلیتوں کے لیے نہ آئین ہے، نہ انصاف اور نہ ہی مساوی حقوق۔
اگر عالمی طاقتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خود بھارتی سول سوسائٹی نے بروقت ردعمل نہ دیا تو بھارت ایک خطرناک مثال بن جائے گا۔ ایسی مثال جہاں جمہوریت کے نام پر آمریت اور سیکولرازم کے نام پر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

Author

  • ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔