تہران میں پاکستان اور ایران کے وزرائے داخلہ کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ پاک-ایران سرحد کو زائرین کے لیے دن رات کھلا رکھنے کا فیصلہ، اربعین اور محرم الحرام کے دوران خصوصی انتظامات، مشہد میں پانچ ہزار زائرین کے قیام و طعام کی سہولتیں اور مشترکہ کانفرنس کا انعقاد، یہ سب اقدامات قابل ستائش ہیں۔ تاہم، جب ہم ان فیصلوں کو زمینی حقائق، خصوصا بلوچستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں، تو کئی اہم اور فوری نوعیت کے سوالات کا جنم لینا فطری امر بن جاتا ہے
بدقسمتی سے بلوچستان ایک عرصے سے بدامنی، پسماندگی اور ریاستی بے توجہی کا شکار رہا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے زائرین ایران کی طرف جاتے ہیں۔ لیکن جس حال میں یہ زائرین کوئٹہ تا تفتان کا سفر کرتے ہیں، وہ نہ صرف تکلیف دہ بلکہ بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے نام پر گھنٹوں کی تاخیر، ناقص سہولتیں، عدم تحفظ اور محدود ذرائع آمد و رفت، یہ سب ان کے سفر کو ایک اذیت ناک تجربہ بنا دیتے ہیں۔
ہر ریاست کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے نہ صرف محفوظ بلکہ باعزت سفر یقینی بنائے۔ اس مقصد کے لیے زمینی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ بحری راستے سے کراچی کے راستے زائرین کو مشہد پہنچانے کے امکانات کو سنجیدگی سے زیر غور لایا جانا چاہیے۔کراچی سے ایرانی بندرگاہوں تک زائرین کی نقل و حرکت کا انتظام نہ صرف زائرین کو سفری اذیت سے نجات دے سکتا ہے بلکہ بلوچستان میں آمد و رفت کی موجودہ دباو کو بھی کم کر سکتا ہے۔عوامی تکالیف اور ٹریفک جام جیسے مسائل سے نجات دیے سکتا ہے ،اور ریاستی وقار میں اضافہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بہتر، محفوظ اور منظم سفری سہولت دے رہی ہے۔اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک خصوصی سبسڈی پیکج کا اعلان کرے تاکہ کم آمدنی والے زائرین بھی اس متبادل راستے سے فائدہ اٹھا سکیں۔
بنظرغائر دیکھا جائے تو زائرین کے قافلوں کی وجہ سے بلوچستان کے عوام، خاص طور پر کوئٹہ شہری اور پھر جہاں جہاں سے ان قافلوں کا گزر ہوتاہے۔ شہری، کئی کئی گھنٹے ٹریفک بلاک، ناکہ بندی اور سکیورٹی بندوبست کی وجہ سے اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں، ایمبولینسز کی راہ میں رکاوٹیں، اور عام لوگوں کی زندگی کا جام ہونا کوئی معمولی مسئلہ نہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ زائرین اور مقامی آبادی، دونوں کے لیے متوازن اور مربوط پالیسی ترتیب دے۔ اس سلسلے میں بحری راستے کے لیے فی الفور فزیبلٹی اسٹڈی اور آزمائشی قافلے روانہ کیے جائیں ۔
بلوچستان میں زائرین کے لیے مخصوص راہداریاں متعین کی جائیں جو عام شہریوں کی آمد و رفت سے جدا ہوں ۔
زائرین کی سہولت کے لیے مرکزی ویب پورٹل، ٹریول ایپ، اور مقامی ہیلپ ڈیسک قائم کیے جائیں ۔
زائرین اور مقامی شہریوں کے درمیان ٹریفک جام کی وجہ سے ممکنہ ٹکراو کے خاتمے کے لیے مقامی کمیونٹی کی مشاورت سے منصوبہ بندی کی جائے۔
زائرین کا سفر ایک مذہبی فریضہ ہے اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اس فریضے کو باوقار اور محفوظ بنائے۔ لیکن یہ سہولت کسی دوسرے پاکستانی کے لیے اذیت کا سبب نہیں بننی چاہیے۔ اسی طرح پاک سفغان سرحد پر آباد قبائل کی آمد و رفت کا آسان ترین طریقہ کار بنایا جائے ۔ یعنی صوبے کے عوام کی مشکلات کو سنجیدگی سے سنا جائے اور ان کے لیے بھی وہی احترام، وہی آسانی، اور وہی ریاستی توجہ ہو جو زائرین کے لیے کی جاتی ہے۔
یہی وہ انصاف ہے جس سے قومیں مضبوط بنتی ہیں۔
Author
-
مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
View all posts