Nigah

اسرائیل اور بھارت کی پاکستان کے خلاف نئی سازشیں

add Pakistan flag to

‏واشنگٹن ڈی سی کے ایک پوش تھنک ٹینک کے بیسمنٹ میں 28 مئی 2025 کی رات حربیار مری کے ترجمان میر یار بلوچ کی موساد کے دو سینئر فیلڈ آفیسرز سے طویل ملاقات ہوئی۔
‏باخبر سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق میر یار نے پیشکش رکھی اگر اسرائیل ہمیں مالی میڈیا اور آپریشنل سپورٹ دے اور بلوچستان کو پاکستان سے الگ کردے تو فتنہ الہندوستان گروپس گوادر کو اسرائیل کے حوالے کردیں گے ۔

‏ڈیل کی sweetener یہ تھی کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) انسانی حقوق کے نام پر احتجاجی لہر اُٹھائے گی جسے موساد بین الاقوامی میڈیا پر ہائی لائٹ کرے گا۔ اسی نشست میں طے پایا کہ میر یار کو موساد اسپانسر پراجیکٹ MEMRI کے Balochistan Studies Project کا خصوصی ایڈوائزر بنایا جائے نامزدگی 15 روز بعد باضابطہ اعلامیے میں شائع بھی ہوئی۔

‏اِس خفیہ گٹھ جوڑ کا جغرافیائی سیاق سمجھنا ضروری ہے۔ 13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران کی یورینیم افزودگی تنصیبات پر وسیع فضائی حملے شروع کیے ایرانی جوابی میزائل فائر سے حائفہ اور تل ابیب لرز اٹھے۔ 16 جون کو اسرائیل نے تہران سے شمالی آبادی کے انخلا کا حکم دے کر میدانِ جنگ کو دارالحکومت تک پھیلا دیا۔تل ابیب کی نئی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ایران کی زمینی گہرائی میں حملے جاری رکھے جائیں مگر بیک وقت اس کی مغربی حد (بلوچستان) پر اندرونی انتشار کھڑا کر کے سپلائی لائن اور سفارتی space سلب کی جائے۔ موساد BYC پلان اسی گریٹر سٹریٹیجی کی ذیلی کڑی ہے۔ مزید تحقیقات پر اہم حقائق سامنے آئے ہیں

‏بھارت، جو پہلے ہی اسرائیل کا ٹاپ تھری اسلحہ خریدار ہے، باراک 8 فضائی دفاعی سسٹم سے لے کر ڈرونز تک کلیدی ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے۔تازہ تجزیوں کے مطابق تل ابیب نئی دہلی کو نہ صرف ہائی ٹیک ہتھیار دے رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کیلئے پراکسی اشتراک ماڈل پر بھی کام کر رہا ہے۔پاکستانی وزیردفاع کھلے عام اعتراف کر چکے ہیں کہ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی نئی دہلی کے پراکسی ہیں جن کی مالی و لاجسٹک پشت پناہی کے ثبوت سرکاری سطح پر پیش کیے جا رہے ہیں۔

‏مارچ 2025 میں جافر ایکسپریس ہائی جیک کیس نے عالمی توجہ کھینچی واقعے کی چھان بین میں بھی بھارتی معاونت کا سراغ ملا، جسے پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں ڈوزیئر کی شکل میں پیش کیا۔اس تناظر میں موساد کو بلوچ کارڈ تھالی میں سجا ملتا ہے بھارت پرانے فنڈنگ نیٹ ورک دیتا ہے اسرائیل میڈیا اور ٹریننگ سپیس۔ ہدف دونوں کا مشترکہ پاکستان اور خطے میں چینی مفادات کمزور کرنا۔

‏ملاقات کے بعد طے ہوا کہ MEMRI-Balochistan Studies کے تحت نوجوان بلوچوں کو

‏اسکالرشپ پر امریکہ لایا جائے؛

‏فکر ی ورکشاپس کے ذریعے بیانیہ ری پروگرام کیا جائے؛

‏منتخب لڑکوں کو اسرائیل بھیج کر low-intensity conflict کی ٹریننگ دی جائے

‏واپسی پر BYC کے پلیٹ فارم سے پُرامن مظاہرے اور سوشل میڈیا کیمپین چلائی جائے تاکہ سیکورٹی فورسز کے ہر کاؤنٹر ایکشن کو حقوقِ انسانی کی پامالی قرار دیا جا سکے۔

‏یہی ہائبرڈ ماڈل مارچ میں بی ایل اے کے ٹرین ہائی جیک اور سوراب پولیس اسٹیشن حملے میں دیکھا جا چکا ہے جہاں مقامی سہولت کاروں نے سوشل میڈیا لائیو فیڈز کے ذریعے رائے عامہ کو منٹوں میں بدل ڈالا۔

‏گوادر بندرگاہ محض پاکستان کا نہیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا سمندری ستون ہے۔ اسرائیل کو یہاں پہنچ ملے تو

‏بیجنگ کا بحرِ ہند تک رسائی والا خواب خطرے میں پڑ جائے گا

‏ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کا عسکری توازن بھی بدل جائے گا

‏خلیجی توانائی روٹس کی نگرانی اسرائیل کے ہاتھ آ جائے گی جو تہران کی معاشی شہ رگ دبانے کیلئے اہم ہتھیار بنے گی۔

‏اسی لئے میر یار نے میٹنگ میں دعویٰ کیا کہ چینی سرمایہ عدم تحفظ کے باعث نکلے گا، اور بلوچستان بد امنی اسرائیل کو فطری اتحادی بنائے گی۔

‏خطرے کی گھنٹی واضح طور پر بج چکی ہے اور سازش کی پرتیں ترتیب وار کھل رہی ہیں۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کو استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کی ایک منظم مہم چلائی جائے گی جس میں جبری گمشدگیوں اور سی پیک کی لوٹ مار جیسے الزامات کو خوب اچھالا جائے گا تاکہ عالمی میڈیا میں پاکستان کی ساکھ کو مجروح کیا جا سکے۔ دوسرے مرحلے میں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ذریعے منظم دہشت گردانہ حملے کرائے جائیں گے، جن کا ہدف ریلوے لائنز، تیل کی پائپ لائنیں اور گوادر ایئرپورٹ جیسی حساس تنصیبات ہوں گی۔ اس سے نہ صرف سیکیورٹی فورسز پر دباؤ بڑھے گا بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی بد دل ہو جائیں گے۔

‏تیسرے مرحلے میں اسرائیلی اور بھارتی تھنک ٹینکس کے ذریعے بلوچ رائٹس کے عنوان سے بین الاقوامی سیمینارز اور سمپوزیم منعقد ہوں گے، جن کا مقصد پاکستان کو عالمی سفارتی تنہائی میں دھکیلنا اور اس پر ممکنہ طور پر مزید پابندیاں عائد کرانا ہو گا۔ چوتھے اور آخری مرحلے میں، جب اسرائیل ایران پر کھلی جنگ مسلط کرے گا، تو اسی تناظر میں پاکستان پر بھی اخلاقی دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ دو محاذ کھول دے ایک طرف ایران سے لاتعلقی اور دوسری طرف اندرونی انتشار سے نمٹنے کی مجبوری۔
اس صورتحال میں نہ صرف تہران مکمل تنہائی کا شکار ہوگا بلکہ اسلام آباد بھی دو طرفہ عسکری کھنچاؤ میں گھِر جائے گا، جو علاقائی استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے

Author

  • انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔