Nigah

اسرائیل کی خوبرو جاسوس دوشیزائیں

iran nigah pk

اسرائیل کی خفیہ ایجنسی "موساد” جنگ کی ایک ماہر کھلاڑی ہے اور اس کا سب سے خطرناک ہتھیار: "ہنی ٹریپ” ہے۔

"ہنی ٹریپ” ایک ایسا طریقہ ہے جس میں خوبصورت خواتین کو بطور ایجنٹس استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ محبت، شادی یا دوستی کے لبادے میں حساس شخصیات کے قریب پہنچتی ہیں، ان کے دل جیتتی ہیں، اعتماد حاصل کرتی ہیں، اور پھر اس کے ذریعے حساس معلومات، خفیہ دستاویزات اور قومی راز اگلوا لیتی ہیں۔

یہ خواتین صرف ایجنٹس نہیں، بلکہ ایک مکمل مشن کا حصہ ہوتی ہیں۔

1960 کی دہائی میں مصر اور شام میں موساد نے اپنے کئی مشن خواتین کے ذریعے مکمل کیے۔ ان ایجنٹس نے سائنسدانوں، افسران اور سیاستدانوں سے تعلقات قائم کیے۔ مردم شماری، جوہری پروگرام، اور دفاعی معلومات موساد نے عرب ممالک سے "بستر کے ذریعے” چُرائیں۔

مشہور اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن نے بھی شام میں خواتین کو استعمال کر کے کئی راز افشا کروائے۔

ایران میں ایک غیر ملکی خاتون کو گرفتار کیا گیا جو ایک سفارتکار کے طور پر آئی تھی، لیکن درحقیقت وہ موساد کی ایک تربیت یافتہ ایجنٹ تھی۔ اس نے کئی مہینے تک مبینہ طور پر سینئر فوجی افسران کے ساتھ ذاتی تعلقات قائم کیے، تہران کے فوجی نقشے اور نیوکلیئر لیبارٹریز کی لوکیشن حاصل کی، اور حساس ملاقاتوں کو خفیہ کیمروں کے ذریعے ریکارڈ کیا۔

نتیجہ کیا ہوا؟

ایران کے بڑے نیوکلئیر سائنسدانوں کا قتل ہوگیا۔
کئی اہم دفاعی تنصیبات کو سائبر اور میزائل حملے کا سامنا کرنا پڑا۔
سینئر افسران کو بلیک میل کر کے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی پوزیشن چھوڑ دیں۔

ایران کی انٹیلیجنس نے اس نیٹ ورک کو بے نقاب تو کر لیا، لیکن نقصان ہو چکا تھا۔
یہ محض ایک لڑکی کی "مسکراہٹ” کے پیچھے چھپی ایک مکمل جنگ تھی جو ایران کے خلاف لڑی گئی۔


جاسوسہ جس نے ایران کے دل میں نقب لگائی اور بیویوں کی زبان سے شوہروں کو مروایا!

کیتھرین پیریز شکدام ایک فرانسیسی دوشیزہ،
جس نے اسلام قبول کیا اور علانیہ تشیع اختیار کر لیا۔
اس نے ایرانی انقلاب کی تعریف کی، ولایتِ فقیہ کی حمایت کی،
یہاں تک کہ اس کے مضامین ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ پر شائع ہونے لگے۔

لیکن یہ سب محض نقاب تھے۔
اس کے پیچھے موساد کی آنکھیں چھپی تھیں،
جو ایرانی نظام کے اندر سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھیں۔

کیتھرین کسی عام جاسوس کی طرح ایران میں داخل نہیں ہوئی،
بلکہ وہ ایک لکھاری، صحافی اور مفکر کے طور پر سامنے آئی۔
اس نے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں، پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ بیٹھکیں جمائیں،
ابراہیم رئیسی سے ملی، اور "صحافتی تحقیق” کے پردے میں حساس علاقوں کا دورہ کیا۔

مگر سب سے خطرناک محاذ تھا: خواتین کی نجی محفلیں۔

وہ ایرانی اعلیٰ حکام، فوجی افسران اور سائنسدانوں کی بیویوں کے قریب ہوئی،
ان سے قریبی تعلقات بنائے، ان کا دل جیتا، یہاں تک کہ وہ اسے اپنی جیسی ایک "بہن” سمجھنے لگیں۔

پھر وہ اپنے شوہروں کی ذاتی زندگی، رہائش، سفر، سیکیورٹی اور روزمرہ کے معمولات تک کی باتیں اس سے بے دھڑک کرنے لگیں۔

ہر لفظ ریکارڈ ہوتا رہا،
ہر معلومات اسرائیل کو بھیجی جاتی رہی۔
انہی معلومات کی بنیاد پر اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگز ہوئیں —
ایسی کلنگز جو خواتین کی معصوم باتوں سے ممکن ہوئیں،
ایسی باتیں، جن کا شاید انہیں خود بھی ادراک نہ تھا کہ وہ جان لیوا ثابت ہوں گی۔

جب اس پر شک ہوا، تو وہ ایران سے فوراً فرار ہو گئیں —
اس سے پہلے کہ راستے بند ہو جائیں۔
مگر اس وقت تک اس کا مشن مکمل ہو چکا تھا۔

وہ ایران کو وہ زخم دے چکی تھی،
جن کی تکلیف آج بھی جاری ہے۔

اسرائیل اب تک ان معلومات کی بنیاد پر خفیہ اور مہلک کارروائیاں کر رہا ہے،
جو کیتھرین نے ایران کے ایوانوں اور گھروں سے حاصل کیں۔

یہ صرف ایک جاسوسی کی داستان نہیں، بلکہ ایک ریاستی سیکیورٹی کی زبردست ناکامی ہے۔


آج کے دور میں، جنگیں بندوق سے نہیں، بلکہ زبان کے وار سے لڑی جاتی ہیں — خاص طور پر خواتین کے حلقوں میں۔

کیا ایران اس سیکیورٹی بریک سے نکل پائے گا۔۔۔۔۔۔؟
اور کیا ایسی کوئی "کیتھرین” آج کسی اور ملک میں سرگرم ہے۔۔۔۔۔۔؟


قارئینِ محترم!

ایران کے دل میں نقب لگانے والی اسرائیلی خاتون جاسوس کیتھرین پیریز شکدام نے کہا کہ اس نے 100 ایرانی ذمہ داران کو جال میں پھنسایا۔
کیتھرین ایک فرانسیسی دوشیزہ تھی، جس نے اسلام قبول کیا اور علانیہ تشیع اختیار کر لیا۔
اس نے ایرانی انقلاب کی تعریف کی، ولایتِ فقیہ کی حمایت کی، یہاں تک کہ اس کے مضامین ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ پر شائع ہونے لگے۔

لیکن یہ سب محض نقاب تھے۔
درحقیقت، اس کے پیچھے موساد کی آنکھیں چھپی تھیں، جو ایرانی نظام کے اندر سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھیں۔

کیتھرین کسی عام جاسوس کی طرح ایران میں داخل نہیں ہوئی،
بلکہ وہ ایک لکھاری، صحافی اور مفکر کے طور پر سامنے آئی۔
اس نے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں، پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ بیٹھکیں جمائیں،
ابراہیم رئیسی سے ملی، اور "صحافتی تحقیق” کے پردے میں حساس علاقوں کا دورہ کیا۔
وہ ایرانی اعلیٰ حکام، فوجی افسران اور سائنسدانوں کی بیویوں کے قریب ہوئی،
ان سے قریبی تعلقات بنائے، ان کا دل جیتا، یہاں تک کہ وہ اسے اپنی جیسی ایک "بہن” سمجھنے لگیں۔
پھر وہ اپنے شوہروں کی ذاتی زندگی، رہائش، سفر، سیکیورٹی اور روزمرہ کے معمولات تک کی باتیں اس سے بے دھڑک کرنے لگیں۔

اسرائیلی اخبار "ٹائمز آف اسرائیل” کے مطابق، کیتھرین نے انکشاف کیا کہ اس نے جنسی تعلقات قائم کرنے کا لالچ دے کر 100 ایرانی ذمہ داران کو اپنے جال میں پھنسایا۔

کیتھرین نے واضح کیا کہ ایرانی مذہبی شخصیات، جنہیں اس نے "ملّاؤں” کا نام دیا، معلومات کا اہم ترین ذریعہ تھیں۔ ان میں اکثریت ایران میں اہم حکومتی منصبوں پر فائز تھیں۔

کیتھرین کے مطابق، اس نے مذہب کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش ظاہر کر کے ایرانی حکومت میں شامل مذہبی شخصیات سے رابطے قائم کیے۔
وہ ان شخصیات کو "عارضی شادی” کی پیشکش بھی کرتی تھی۔
اس پیشکش اور اعتماد حاصل کر لینے کے بعد، یہ شخصیات خلوت میں خود ہی کیتھرین کو اہم معلومات فراہم کر دیا کرتی تھیں۔

اسرائیلی خاتون جاسوس نے مثال دیتے ہوئے ایرانی پارلیمنٹ کے ایک رکن کا ذکر کیا،
جس نے "قربت” کی ملاقات میں پارلیمنٹ کے خفیہ اور بند اجلاس میں ہونے والی تمام کارروائی اور اہم ملکی راز کیتھرین کے سامنے گوش گزار کر دیے۔

کیتھرین نے نہ صرف اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کروائی،
بلکہ اسرائیل کو ایران کے سارے خفیہ راز فراہم کیے
اور اپنا مشن پورا کر کے ایران سے فرار ہو گئی۔


پاکستان کو سیکھنا ہوگا!

پاکستان میں حالیہ برسوں میں کئی لڑکیاں امریکہ، کینیڈا، بھارت یا یورپ سے "اسلام سے متاثر ہو کر” پاکستان آئی ہیں۔
کچھ نے یہاں شادی کی، کچھ نے تحقیق یا بزنس کے بہانے یہاں کے دفاعی اور سیکیورٹی حلقوں میں رسائی حاصل کی۔
کئی کے پیچھے غیر ملکی ایجنسیاں تھیں۔

یہ کوئی فلمی کہانی نہیں، بلکہ خطرناک حقیقت ہے۔

ایسی خواتین جو سوشل میڈیا کے ذریعے فوجی، سائنسی یا حکومتی افراد سے رابطہ کرتی ہیں، وہ اکثر "ریموٹ کنٹرول جاسوس” ہوتی ہیں۔

نوجوان پاکستانی جذبات میں آ کر ایسی لڑکیوں سے شادی کر بیٹھتے ہیں، جن کا مقصد صرف معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔

مگر ان نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ تمہاری محبت، تمہارا ایمان، تمہارا رشتہ صرف اللہ اور اسلام کے لیے ہونا چاہیے۔
کوئی بھی رشتہ جو تمہیں اپنے دین، ملک یا غیرت سے دور لے جائے، وہ محبت نہیں، ہتھیار ہے۔

ایسا نہ ہو کہ تمہارا دل کسی ایسی مسکراہٹ کا قیدی بن جائے جو دراصل تمہارے وطن پر حملہ آور ہو۔

ایران نے سبق سیکھا،
پاکستان کو بھی سیکھنا ہوگا۔

نوجوانوں کو تربیت دی جائے کہ وہ ہر "محبت کی آفر” کو خوشی سے نہ اپنائیں۔
ہر ایسی شادی یا رشتہ جو غیر معمولی لگے، اس پر نظر رکھی جائے۔

اسرائیل کی ہنی ٹریپ پالیسی آج ایران کو نقصان پہنچا چکی — کل پاکستان بھی اس کا نشانہ بن سکتا ہے۔

دشمن توپ سے نہیں، تمہارے دل سے حملہ کر رہا ہے۔
اپنے جذبات کی حفاظت کرو — کیونکہ یہی تمہاری قوم کی پہلی لائنِ دفاع ہے۔

Author

  • ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔