Nigah

المیہ سوات ،جب وقت قضا ائے تو نہ طاقت بچا سکتی ہے نہ تدبیریں و آہ و زاری

swat nigah flood nigah

اللہ کے حکم کے بغیر تو ایک پتہ بھی نہیں ہلتا، پھر چاہے آسمان سے ہیلی کاپٹر اُتر آئے یا سینکڑوں دوست ہاتھ تھامنے آئیں۔
جب وقتِ قضا آ جائے تو نہ طاقت بچا سکتی ہے، نہ تدبیر، نہ ہی آہ و زاری۔

27 جون 2025 کا دن، سوات کا دریا، اور سیالکوٹ سے آئی وہ فیملی جس نے صرف ایک پُرسکون سی سیر کی خواہش کی تھی۔ کالام ویلی جانا چاہا، مگر تقدیر نے انہیں سوات کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

وہاں منظر کچھ یوں تھا کہ: پانی بہہ رہا تھا، فضا خاموش تھی، بچے ہنس رہے تھے، والدین سکون میں تھے…
مگر قضا اپنی گھڑی گن رہی تھی۔
پھر جیسے ہی پانی نے کروٹ لی، آسمان جیسے دہاڑ اٹھا، زمین تھرا گئی۔

اس وقت وہاں سینکڑوں لوگ موجود تھے۔ گرد و پیش کے لوگ، سیاح، مقامی، دکاندار، راہگیر… سب نے منظر دیکھا۔
سب کچھ ہوتا رہا اُن کی آنکھوں کے سامنے… چیخیں، فریادیں، بچوں کی سسکیاں، ماں کی پکار، باپ کی بے بسی…
اور وہ سب… ہاں، سینکڑوں افراد صرف تماشائی بنے رہ گئے۔

وہ کچھ کرنا چاہتے تھے، کسی کی چیخوں پر لپکنا چاہتے تھے، کسی بچے کو کھینچ لینا چاہتے تھے…
مگر قدرت نے ایسا طوفان برپا کر دیا کہ سب کے قدم جم کر رہ گئے۔
کسی کا دل ہل گیا، کسی کی آنکھیں بھر آئیں، کسی کی زبان بند ہو گئی۔
پانی کا وہ شور، اُس لمحے ہر انسانی آواز سے بلند ہو گیا۔

کسی نے رسی لائی، کسی نے آواز دی، کسی نے دوڑ لگا دی…
مگر سب لاحاصل رہا۔
وہ پانی نہیں، تقدیر کا ریلا تھا۔
اور تقدیر کے سامنے انسان کی کوئی تدبیر کھڑی نہیں ہو سکتی۔

ایک لمحے میں وہ سب کچھ بہہ گیا:
ماں کی گود، باپ کی بانہیں، بچوں کی مسکراہٹیں، خاندان کا خواب…
صرف چار زندہ بچے، باقی نو لاشیں — اور ایک ایسی خاموشی جو آج بھی سوات کی ہوا میں گونج رہی ہے۔

اس سے پہلے 2022 میں بھی، پانچ بھائی ایسے ہی دریا کی نذر ہو گئے تھے۔
اُس وقت بھی کوئی کچھ نہ کر سکا۔
اب بھی، بے بسی کا منظر وہی تھا۔

صرف چہرے نئے تھے،
منظر نیا تھا، مگر انجام وہی۔


قارئینِ محترم!

چلو تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ سانحہ سوات ایک قدرتی حادثہ تھا۔
چلو مان لیتے ہیں ایسے واقعات پورے ملک میں ہوتے رہتے ہیں۔
چلو یار، تم جو کچھ بھی کہتے ہو، ہم جاہل تمہیں باشعور سمجھ کر تمہاری ہر بات مان لیتے ہیں۔

لیکن اس تصویر کو چیک کریں…
کیا شہداء، اور وہ بھی معصوم بچوں کی میتیں بلدیہ کی کچرا اور گندگی اُٹھانے والی گاڑیوں میں ہسپتال منتقل کرنا بھی شعور ہے…؟

کیا 12 سال مسلسل حکمرانی کے بعد دو چار ایمبولینس بھی ہمارے بچوں کے لیے نہیں تھیں؟

کچھ خوفِ خدا کریں…!
کیا تم نے رب کو جان نہیں دینی…؟
کیا تمہارے سینے میں بھی پتھر ہے…؟
کیا تمہاری اولاد اور بہن بھائی نہیں ہیں…؟


اور حرفِ آخر یہ کہ:

المیہ سوات یہی پیغام دیتا ہے:
کہ زندگی کا اختیار ہمارے پاس نہیں۔
ہم صرف دعا کر سکتے ہیں،
دعا کے ساتھ احتیاط، اور مکمل توکل۔

کیونکہ…
جب رب کا فیصلہ نافذ ہو جائے،
تو انسان صرف دیکھ سکتا ہے،
رو سکتا ہے،
مگر… روک نہیں سکتا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،
اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ آمین
۔

Author

  • ڈاکٹر اکرام احمد

    اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔