Nigah

درپیش عالمی معاشی بحران اور قرضوں کا جال

world nigah pk

دنیا اس وقت معاشی طور پر غیر یقینی صورتحال کی شکار ہے۔ کورونا وبا کے بعد عالمی سطح پر افراطِ زر، یوکرین جنگ، تیل و خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور ماحولیاتی تباہ کاریوں نے معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔
ان حالات میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر اثرات کہیں زیادہ شدید اور دیرپا ہوتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی مالیاتی بحران، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان عالمی معاشی بحران کے بہانے مزید قرضے لے کر ایک اور جال میں پھنس رہا ہے؟

2020 سے جاری عالمی مالیاتی غیر یقینی صورتحال میں کئی بڑی معیشتیں بھی ہچکولے کھا رہی ہیں۔ عالمی منڈی میں کساد بازاری کے خدشات، فیڈرل ریزرو اور دیگر مرکزی بینکوں کی سود کی شرح میں اضافہ، چینی معیشت کی سست روی، یورپ میں توانائی بحران اور مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی نے عالمی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس کے اثرات ترقی پذیر ممالک پر کئی گنا زیادہ پڑتے ہیں، کیونکہ وہ نہ صرف درآمدات پر انحصار کرتے ہیں بلکہ سرمایہ کاری کے لیے عالمی اداروں پر بھی انحصار کرتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت پہلے ہی کئی دہائیوں سے کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ زراعت، صنعت اور برآمدات کا شعبہ غیر مستحکم ہے۔ جبکہ درآمدات کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ، توانائی بحران اور صنعتی زوال نے معیشت کو بحران کا شکار کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی کثیر زرمبادلہ درکار ہے، جو ملکی ذخائر میں کمی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔

پاکستان کی معاشی پالیسی گزشتہ کئی دہائیوں سے قرضوں پر انحصار کرتی رہی ہے۔ چاہے وہ آئی ایم ایف ہو، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک یا چین۔۔ ہر حکومت نے اپنی ضرورت کے مطابق قرضے حاصل کیے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان پر بیرونی قرضے تقریباً 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ یہ قرضے صرف ترقیاتی منصوبوں کے لیے نہیں بلکہ خسارے پورے کرنے، ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے اور کرنسی کو مستحکم رکھنے کے لیے بھی لیے جاتے ہیں۔

آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر ادارے بظاہر مالی مدد فراہم کرتے ہیں، لیکن ان کے پروگرامز کے ساتھ سخت شرائط بھی منسلک ہوتی ہیں۔ جیسے کہ سبسڈی میں کٹوتی، ٹیکسوں میں اضافہ، کرنسی کی قدر میں کمی اور نجکاری کا فروغ۔ ان شرائط کا براہ راست اثر عام عوام پر پڑتا ہے۔

حکومتیں بار بار یہ مؤقف اختیار کرتی ہیں کہ نئے قرضے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر قرضوں کا استعمال معاشی اصلاحات، برآمدات میں اضافے اور خود انحصاری کے لیے نہ ہو تو پھر یہ صرف وقتی ریلیف بن کر رہ جاتے ہیں۔ مزید قرضے لینا اگر معیشت کو خود کفیل نہ بنائے تو یہ جال بنتا جاتا ہے، جس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

پاکستان کو اگلے چند برسوں میں اربوں ڈالر قرضوں کی واپسی کرنی ہے۔ مگر زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہیں۔ برآمدات کم، درآمدات زیادہ اور ترسیلاتِ زر بھی دباؤ میں ہیں۔ اس صورتحال میں قرضوں کی واپسی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اگر قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے جائیں، تو یہ پائیدار حل نہیں بلکہ ایک چکر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔

قرضوں کے اس جال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سنجیدہ معاشی اصلاحات کرے۔ چند اہم اقدامات کرے۔
ملکی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے زراعت اور صنعت کو سہولتیں دینا ہوں گی۔ ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور عالمی معیار کی پیداوار سے برآمدات میں اضافہ ممکن ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا اور نان فائلرز کو نظام میں لانا ضروری ہے۔ حکومتی فضول اخراجات اور کرپشن پر قابو پا کر بچت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح توانائی کے شعبے کو خود کفیل اور مؤثر بنانا معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرے گا۔

پاکستان نے حالیہ برسوں میں چین، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے بھی مالی مدد حاصل کی ہے۔ ان ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری یا قرضوں کی صورت میں مالی امداد تو مل جاتی ہے، لیکن یہ بھی مشروط اور وقتی ہوتی ہے۔ اگر ان امدادوں کو استعمال کرتے ہوئے پائیدار منصوبے شروع نہ کیے جائیں تو یہ امداد بھی دیرپا فائدہ نہیں دیتی۔

قرضوں کی شرائط کی بدولت سبسڈی ختم، مہنگائی میں اضافہ، بجلی و گیس مہنگی اور ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر آ پڑتا ہے۔ اس کا نتیجہ غربت میں اضافہ، بے روزگاری اور عام آدمی کی مشکلات کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب تک حکومتی پالیسیاں عام آدمی کی فلاح کے لیے نہیں بدلیں گی، قرضے صرف بوجھ بنیں گے۔

بدقسمتی سے ہمارا میڈیا بھی ان پیچیدہ مالی معاملات کو عام فہم انداز میں عوام کے سامنے رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ حکومتیں قرضوں کو کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہیں جبکہ اپوزیشن اسے بدانتظامی کا نتیجہ کہتی ہے۔ اس شور میں اصل مسئلہ، یعنی خود انحصاری اور نظام کی درستگی، گم ہو جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں بری طرح الجھ چکا ہے، اور اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ جال مزید سخت ہوتا جائے گا۔ عالمی معاشی بحران پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ اپنی معیشت کی کمزوریوں کو پہچان کر خود کو درست کرے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم قرضوں پر انحصار ترک کرکے معیشت کو اندرونی وسائل سے چلانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو آنے والے دن پاکستان کی معاشی خودمختاری کو داؤ پر لگا سکتے ہیں۔

Author

  • munir nigah

    ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔