اگر ہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت، ان کی جماعت بی جے پی اور ان کے ماضی کے بیانات کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت نے نفرت، اشتعال اور شدت پسندی کو اپنی سیاست کا محور بنایا ہوا ہے۔
درحقیقت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس وقت شدید ذہنی کیفیت اور سیاسی دباؤ کا شکار ہیں۔ بھارتی عوام کو ایک بار پھر جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دنیا بھر میں جمہوری اقدار اور بین الاقوامی آداب کی روشنی میں، ریاستی سربراہان کو ہمیشہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ وہ دنیا کے سامنے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے الفاظ صرف الفاظ نہیں ہوتے بلکہ پورے نظام کا نظریاتی عکس ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ نریندر مودی اپنے منصب کی حرمت کو بار بار پامال کرتے نظر آتے ہیں۔ نریندر مودی اور بی جے پی کی سیاست کا محور ہی نفرت اور تعصب ہے۔ اس جماعت نے اپنی بنیاد ہی ہندو انتہا پسندی پر رکھی ہے۔ پاکستان دشمنی ان کے سیاسی منشور کا لازمی حصہ ہے۔
داخلی مسائل، معاشی بحران، بیروزگاری اور بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کے لیے بی جے پی ہمیشہ بیرونی دشمن کھڑا کرتی ہے، اور پاکستان اس کے لیے سب سے آسان ہدف ہوتا ہے۔
آج بھارت میں بی جے پی کی مقبولیت میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے، اس لیے ایک بار پھر جنگی جنون کو ہوا دے کر ووٹرز کو اپنی جانب مائل کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔
مودی کے اشتعال انگیز رویے کے پیچھے ایک بڑی وجہ پہلگام واقعہ اور اس کے بعد 10 مئی کو پاکستان کے ساتھ ہونے والی جنگ میں بھارتی فوج کی شکست ہے۔ پہلگام میں پیش آنے والا واقعہ (جس کی مکمل چھان بین ابھی باقی ہے) کو مودی حکومت نے فوری طور پر پاکستان سے جوڑ دیا اور اس کے نتیجے میں جنگ چھیڑ دی گئی۔ لیکن یہ جنگ بھارت کے لیے ہر لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہوئی، نہ صرف میدانِ جنگ میں بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان نے مکمل تدبر، عسکری مہارت اور تحمل کے ساتھ دشمن کی ہر چال کو ناکام بنایا۔ پاکستانی افواج نے دفاعی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
یہی شکست مودی حکومت کے لیے سیاسی، عسکری اور سفارتی محاذوں پر زبردست دھچکہ ثابت ہوئی، جس کا بدلہ وہ اب اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خود بھارت کے معروف صحافی سنجے جھا نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے زوال سے متعلق سے انکشاف کیا ہے کہ مودی کے زوال کا بنیادی سبب مودی کی نااہلی اور ناکامی ہے۔ مودی کے سیاسی مستقبل پر جاری بحث بظاہر تو ان کی عمر پر ہے جبکہ اصل مسئلہ ان کے ناقابل شکست ہونے کے تاثر کا تار تار ہونا ہے۔ بھارتی صحافی کے مطابق آر ایس ایس اور بی جے پی انتخابی ناکامیوں، اندرونی اختلافات اور خارجہ پالیسی کی ناکامیوں سے دوچار ہیں۔
مودی کے وعدے، ٹیم سازی میں ناکامی اور بھارت کے عالمی وقار کا زوال اب نریندر مودی کے سیاسی مستقبل کے خاتمے کی نوید دے رہے ہیں کہ ان کی روانگی کے لیے بہانہ کیا بنایا جاتا ہے؟
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ بھارتی عوام اب ان کی حیثیت جان چکی ہے۔ مودی کے جنگی استعارے بے اثر ہو چکے ہیں۔ قوم ان سے پوچھ رہی ہے کہ:
- روزگار کی فراہمی کے وعدے کہاں گئے؟
- مہنگائی پر قابو کیوں نہیں پایا؟
- کالا دھن واپس کیوں نہیں آیا؟
- خواتین کے لیے محفوظ ماحول کیوں نہیں ملا؟
- اور کہاں ہے وہ 2047 کا فریبی خواب؟
اب تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یہ حال ہو گیا ہے کہ وہ بی جے پی کی صدارت کے لیے اپنے من پسند صدر کی نامزدگی میں بھی بری طرح سے ناکام ہو گئے ہیں۔
بھارتی عدلیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا کی جانبداری بارہا ثابت ہو چکی۔ اسی طرح سی بی آئی اور ای ڈی جیسے تفتیشی اداروں کے سیاسی استعمال نے بھارت میں جمہوریت کی کمزوری کے تاثر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے۔
ایک وقت میں عالمی سفارتی طاقت کے طور پر پہچانے جانے والے نریندر مودی اب عالمی سطح پر بھارت کی شرمندگی کا باعث بن چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی تارکینِ وطن کی زنجیروں میں جکڑے ہوئی واپسی، غزہ میں اسرائیلی مظالم پر بھارتی خاموشی اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے بھارتی ساکھ کو عالمی سطح پر شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔
بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک "سیکولر” ریاست قرار دیتا ہے آج نریندر مودی کی قیادت میں ایک ایسے راستے پر گامزن ہے جہاں مذہبی اقلیتوں کے لیے زندگی دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں کے لیے ریاستی ادارے اور اکثریتی سماج خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
منی پور بھارت کی شمال مشرقی ریاست ہے، جو نسلی، مذہبی اور ثقافتی تنوع رکھتی ہے۔ 2023 میں منی پور حکومت نے میئتی برادری کو "قبائلی اقلیت” کا درجہ دینے کی کوشش کی تاکہ وہ بھی سرکاری کوٹے اور زمین کے حقوق جیسے فوائد حاصل کر سکیں۔
اس فیصلے نے کُکی زو برادری میں یہ احساس پیدا کیا کہ ان کا وجود، زمین اور شناخت خطرے میں ہیں۔ جس کے خلاف احتجاج شروع ہوا، جسے حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً یہ احتجاج خونریز فسادات میں تبدیل ہوگیا۔
فسادات میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ساٹھ ہزار سے زائد بے گھر ہوگئے۔ ان فسادات میں پانچ سو گاؤں تباہ ہوئے جبکہ تین سو سے زیادہ چرچ نذرِ آتش کیے گئے۔ متعدد خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں بھارتی فورسز کی موجودگی میں خواتین کو گھسیٹا جا رہا ہے۔ جبکہ حکومتی خاموشی نے ان واقعات پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔
نریندر مودی جو اپنے طور پر خود کو دنیا کا طاقتور لیڈر قرار دیتے ہیں، اس پوری صورتحال پر مکمل خاموش ہیں۔ نہ انہوں نے کسی مظلوم کا حال پوچھا۔ نہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور نہ کوئی تحقیقاتی کمیشن بنایا۔
بھارت کی اعلیٰ عدالتیں اور میڈیا بھی اکثر اس بحران کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں۔ اس رویے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت کے نزدیک اقلیتوں کی جان و مال کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
منی پور کے فسادات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی برادری عیسائی ہے۔ ان کے گھروں، عبادت گاہوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات اس منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جس کے تحت بھارت کو صرف ہندو ریاست بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پادریوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، عیسائی لڑکیوں کا اغوا اور زیادتی کا نشانہ بنانا اور چرچ کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔
بی جے پی کا نظریاتی ڈھانچہ "ہندوتوا” پر قائم ہے، جو بھارت کو صرف ہندو مذہب کے پیروکاروں کا وطن تصور کرتا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا مشترکہ مقصد بھارت کی شناخت کو مکمل طور پر ہندومت سے وابستہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ:
- مسلمانوں کو گائے کے نام پر قتل کیا جاتا ہے،
- عیسائی مشنریوں پر تبدیلی مذہب کا جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے،
- اور سکھوں کو علیحدگی پسند قرار دے کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اگرچہ منی پور میں فسادات کا مرکز عیسائی برادری ہے مگر بھارت کے دیگر حصوں میں مسلمانوں کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ بھارت ایک جمہوری ریاست کے لبادے میں فاشزم کا قلعہ بن چکا ہے۔
شاید اس کی بنیادی وجہ آر ایس ایس جان چکی ہے کہ "مودی برانڈ” زوال پذیر ہو چکا، ان کی ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی اور عالمی سطح پر ملکی وقار بھی گر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کو زائد العمر قرار دے کر فارغ کیے جانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ مگر بات بڑھ چکی ہے — اب بحث ان کی عمر پر نہیں بلکہ قیادت کی تبدیلی اور پارٹی کے مستقبل کی ہے۔
Author
-
محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔
View all posts