Nigah

پاکستان کی نئی دفاعی خارجہ پالیسی

پاکستان کی نئی nigah
[post-views]

دنیا کی بدلتی اقتصادی، معاشی، سیاسی اور دفاعی صورتحال کی بدولت پاکستان ایک بار پھر عالمی اور علاقائی سلامتی کی سیاست کا محور بن چکا ہے۔ پاکستان کی نئی سیاسی اور عسکری سفارت کاری نہ صرف خطے کے بدلتے تزویراتی نقشے کی غمازی کر رہی ہے بلکہ دنیا کو یہ واضح پیغام بھی دے رہی ہے کہ پاکستان اب صرف سکیورٹی لینے والا ملک نہیں بلکہ سکیورٹی دینے والا ملک بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ ریجنل چیفس آف ڈیفنس سٹاف کانفرنس میں پاکستان، امریکہ، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے اعلیٰ فوجی حکام کی شرکت اس نئی خارجہ پالیسی کی عملی تصویر تھی جس میں امن، تعاون، اور مشترکہ ذمہ داریوں پر مبنی ایک مربوط خطے کی بنیاد رکھی گئی۔
کانفرنس نے عالمی طاقتوں اور خطے کے ممالک کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز کر دی ہیں۔
پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ کانفرنس نہ صرف علاقائی سلامتی کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت تھی بلکہ پاکستان کی اس بدلتی ہوئی خارجہ و دفاعی پالیسی کا عملی اظہار بھی تھی، جس کا دائرہ "بشکیک سے لے کر غزہ تک” پھیلتا نظر آتا ہے۔ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں عسکری تعلقات کو محض دفاعی زاویے سے نہیں بلکہ ایک تزویراتی مکالمے کی صورت میں دیکھا گیا۔ کانفرنس میں جس نکتے کو سب سے زیادہ اجاگر کیا گیا وہ "سرحدوں سے ماورا خطرات” اور "ہائبرڈ چیلنجز” کے خلاف مشترکہ تعاون کی ضرورت تھی۔

پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم نے اپنے کلیدی خطاب میں خطے میں پاکستان کی مسلسل کوششوں کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ صرف اپنی سرزمین بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کے لئے سرگرم ہے۔ یہ وہ پیغام تھا جو علاقائی طاقتوں اور عالمی شراکت داروں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب افغانستان میں عدم استحکام، بھارت کی دہشتگردانہ اور جارحانہ پالیسیوں اور مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان نے واضح کیا کہ خطے میں انسداد دہشت گردی، سائبر دفاع، اور انسانی بحرانوں کے دوران وہ نہ صرف اپنی سکیورٹی بلکہ علاقائی استحکام اور ترقی کا بھی ضامن بننا چاہتا ہے۔
شش ملکی کانفرنس میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ دہشت گردی، انتہا پسندی، سائبر سیکیورٹی اور منشیات کی سمگلنگ جیسے مسائل کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کو متاثر کرتے ہیں۔ ایسے میں صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی حکمت عملی ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد خطے میں سکیورٹی کا خلا پیدا ہوا، جس سے نہ صرف دہشت گرد گروہوں کو منظم ہونے کا موقع ملا بلکہ وسطی ایشیائی ریاستیں بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہو گئیں۔ پاکستان نے اس اجلاس میں واضح کیا کہ وہ ایک ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے ان خلاؤں کو پر کرنے میں کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
کانفرنس میں امریکا کی شرکت کو بین الاقوامی حلقے خاص اہمیت دے رہے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوبارہ فعال عسکری روابط کا اشارہ ہے بلکہ یہ بھی کہ واشنگٹن، اسلام آباد کو خطے کی نئی تشکیل میں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی جب امریکا اور بھارت کے درمیان اسٹریٹیجک اشتراک گہرا ہو رہا ہے، اور چین خطے میں اپنی معاشی و عسکری موجودگی کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کی یہ حکمت عملی کہ وہ ایک طرف چین کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ برقرار رکھے اور دوسری طرف امریکہ سے بھی تعمیری روابط قائم کرے ایک متوازن خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔
کرغیزستان، قازقستان، تاجکستان اور ازبکستان جیسے ممالک ماضی میں روسی اثرورسوخ اور امداد پر انحصار کرتے تھے۔ لیکن موجودہ عالمی تناظر میں یہ ریاستیں ایسے شراکت دار کی تلاش میں ہیں جو ان کی خودمختاری کا احترام کرے، باہمی فائدے پر مبنی تعاون کرے اور سکیورٹی و تجارت میں طویل مدتی پالیسی اپنائے۔ چنانچہ پاکستان جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کی حیثیت سے وسطی ایشیائی ریاستوں کا فطری اتحادی ہے گوادر بندرگاہ، اور سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے ان ریاستوں کے لیے ایک قابل اعتماد دوست بن کر ابھرا ہے۔
اسلام آباد کی یہ عسکری سفارت کاری درحقیقت اسی وژن کو عملی شکل دینے کی کوشش ہے۔
یہ کانفرنس اگر چہ براہ راست فلسطین یا کشمیر کے تنازع پر نہیں تھی، تاہم پاکستان کی حالیہ سفارتی حکمت عملی جس میں غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف سخت بیانات، او آئی سی میں سرگرم کردار، اور کشمیر میں بھارتی مظالم پر عالمی بیداری کی کوششیں شامل ہیں، کانفرنس کے بیانیے میں غیر محسوس طور پر موجود تھیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی اب صرف بیانات اور قراردادوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ عملی اشتراک، عسکری روابط اور بین الاقوامی فورمز پر مؤثر سفارت کاری پر مبنی ہے۔ کانفرنس پاکستان کے اس مؤقف کی تائید تھی کہ امن صرف بارود سے نہیں، بلکہ اعتماد، مکالمے اور مشترکہ ذمہ داریوں سے حاصل ہوتا ہے۔ معاشی سلامتی، غذائی تحفظ، سائبر دفاع اور ماحولیاتی چیلنجز جیسے عوامل بھی قومی سلامتی کا لازمی حصہ ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جسے شرکائے کانفرنس عالمی سطح پر منتقل کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کے تمام ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کی فضا قائم ہو سکے۔
ریجنل چیفس آف ڈیفنس سٹاف کانفرنس صرف ایک رسمی اجلاس نہیں تھا بلکہ کانفرنس دنیا کی عسکری اور سفارتی سوچ میں تبدیلی کی علامت تھی۔ کانفرنس اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان اب خطے کے لیے صرف ایک اسٹیک ہولڈر نہیں بلکہ ایک فعال معمار بننے جا رہا ہے جو نہ صرف اپنی سلامتی کو یقینی بنانا چاہتا ہے بلکہ پورے خطے کو امن، تعاون اور ترقی کی طرف لے جانے کا خواہاں ہے۔
اسلام آباد کی یہ سرگرمی "بشکیک سے لے کر غزہ تک” پاکستان کے ابھرتے ہوئے کردار اور اس کی نئی دفاعی خارجہ پالیسی کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔ ایک ایسی پالیسی جو نظریاتی اصولوں، تزویراتی مفادات اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو یکجا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

Author

  • Azeem gul nigah pk

    ڈاکٹر عظیم گل نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں فیکلٹی ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔