Nigah

پاک افغان تعلقات : طالبان حکومت کی پالیسی تبدیل ؟

Nigah Pk افغانستان کی طالبان حکومت

افغانستان کی طالبان حکومت نے حالیہ دنوں میں پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے بااثر مذہبی رہنما عبدالسمیع غزنی کو گرفتار کر کے اسلام آباد کو پالیسی میں تبدیلی کا مثبت اشارہ دیا ہے۔ عبد السمیع غزنی وہ شخصیت ہیں جو اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر آئے روز پاکستان مخالف بیانیہ کے ذریعے افغانوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے پاکستان کو فتح کرنے کا جو زہر اگلا اس سے دونوں ملکوں کے بڑھتے تعلقات کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس کے ساتھ انہوں نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو بھی سرِ عام تنقید کا نشانہ بنایا۔ جو افغان حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ طالبان حکومت نے عبدالسمیع کو حراست میں لے کر 45 دن قید کی سزا سنائی ہے۔ بادی النظر میں یہ خبر اگرچہ ایک معمولی عدالتی کارروائی محسوس ہو سکتی ہے مگر اس کے سیاسی اور سفارتی پہلو نہایت گہرے ہیں۔ اس واقعے نے نہ صرف طالبان حکومت کے اندرونی نظریاتی تناؤ کو آشکار کیا ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ایک نئی اور ممکنہ طور پر مثبت جہت کا بھی اشارہ دیا ہے۔

عبدالسمیع غزنی جیسے بااثر عالم کی گرفتاری کو محض ایک شخص کی سزا کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ دراصل افغان حکومت کی طرف سے ایک بڑی سطح پر واضح اور بامعنی پیغام ہے۔ ایسا پیغام جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ طالبان قیادت اب محض نظریاتی جنگ نہیں لڑ رہی بلکہ وہ اپنی حکمرانی کو عملی اور زمینی سطح پر مستحکم بنانے کے لیے بھی سنجیدہ ہو چکی ہے۔

طالبان نے عبدالسمیع غزنی کو نہ صرف اس لیے گرفتار کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ بنا رہا تھا بلکہ اس لیے بھی کہ وہ داخلی پالیسیوں کو بھی عوامی سطح پر چیلنج کر رہا تھا، خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے معاملے پر۔ اس فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طالبان اب ان افراد کو بھی جوابدہ ٹھہرانے پر آمادہ ہیں جو ریاستی نظم و ضبط کے خلاف غیر ذمہ دارانہ اور جذباتی مہمات چلا رہے ہیں۔

پاکستان ہمیشہ سے اس بات کا خواہاں رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات برادرانہ، باہمی احترام اور عدم مداخلت کے اصولوں پر قائم رہیں۔ تاہم پاکستان کے اندر مسلسل یہ احساس پایا جاتا رہا ہے کہ بعض افغان عناصر خصوصاً مذہبی شدت پسند دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ عبدالسمیع غزنی انہی عناصر میں شامل تھے جو پاکستان کو مسلسل دشمن کے طور پر پیش کر رہے تھے اور افغانستان میں نوجوان ذہنوں کو منفی جذبات کی طرف دھکیل رہے تھے۔ ان کی گرفتاری اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ طالبان حکومت نے ان قوتوں کے خلاف موقف اختیار کر لیا ہے جو خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف پاکستان کے لیے باعثِ اطمینان ہے بلکہ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد بھی رکھتی ہے۔ پاکستان اس افغان حکومتی اقدام کو ایک ذمہ دار اور بالغ نظر فیصلہ سمجھتا ہے جو مذہبی جذبات کو دشمنی اور انتہا پسندی کے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے سے روکنے کی سنجیدہ کوشش ہے۔

افغان حکومت کا یہ فیصلہ اندرونی سطح پر بھی خاصا اہم اور پیچیدہ ہے۔ عبدالسمیع غزنی جیسی مذہبی حیثیت رکھنے والی شخصیت کو جوابدہ ٹھہرانا اس بات کی دلیل ہے کہ طالبان اب محض ایک نظریاتی گروہ نہیں رہے بلکہ وہ خود کو ایک منظم ریاستی ادارے کے طور پر منوانا چاہتے ہیں۔ افغان حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ مذہبی تقدس یا فرقہ وارانہ وابستگی کو ریاستی نظم و نسق اور قومی مفادات پر غالب نہیں آنے دے گی۔ یہ اقدام طالبان کے اپنے اندر بھی ایک فکری ارتقاء کا پتہ دیتا ہے جہاں شدت پسندی کی جگہ تدبر، توازن اور طویل المدتی قومی مفادات نے لے لی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سے نازک اور جذباتی نوعیت کے حامل رہے ہیں۔ تاریخی، جغرافیائی اور نسلی عوامل ان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ ایسے میں طالبان حکومت کی جانب سے عبدالسمیع غزنی کی گرفتاری ایک بڑی سفارتی پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے۔ یہ فیصلہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ افغانستان اب محض نظریاتی وابستگیوں کی بنیاد پر ریاستی پالیسی نہیں چلا رہا بلکہ وہ خطے میں استحکام، امن اور باہمی تعاون کو بھی اہمیت دے رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا اس بات کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک اب ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے پر آمادہ ہیں۔

طالبان حکومت نے یہ گرفتاری کر کے ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی داخلی یا خارجی مداخلت کو خاطر میں لائے بغیر قومی بیانیہ کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عبدالسمیع غزنی جیسے افراد کو گرفت میں لینا آسان کام نہیں ہوتا، خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جہاں مذہبی شخصیات کو ناقابلِ سوال سمجھا جاتا ہو۔ مگر طالبان حکومت نے نہ صرف یہ قدم اٹھایا بلکہ اسے عدالتی فیصلے کی صورت میں نافذ بھی کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب خود کو دنیا کے سامنے ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔ فیصلہ ایک چھوٹا مگر نہایت اہم قدم ہے جو خطے میں امن، بھائی چارے اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے ایک نئے باب کی ابتدا بن سکتا ہے۔ پاکستان توقع رکھتا ہے کہ افغان حکومت مستقبل میں بھی ایسے فیصلے لے کر اس بیانیے کو مضبوط کرے گی جو امن، باہمی احترام اور نظریاتی اعتدال پر مبنی ہو۔ اگر طالبان حکومت اسی راستے پر گامزن رہی، تو خطے میں وہ تبدیلی آ سکتی ہے جس کا خواب دہائیوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک ایسا جنوبی ایشیا جہاں مذہب، جغرافیہ یا تاریخ کو تنازعے کی بنیاد بنانے کے بجائے، امن، ترقی اور تعاون کے ستونوں پر خارجہ پالیسی استوار کی جائے۔

اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔