بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے چند روز قبل اپنی ایک تقریر میں انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ جسے عرف عام میں آر ایس ایس کہا جاتا ہے کو دنیا کی سب سے بڑی این جی او قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اس انتہا پسند تنظیم کی نام نہاد خدمت کے سو سال مکمل ہونے پر خراج تحسین بھی پیش کیا ہے۔ یوں تو مودی نے اس بیان میں آر ایس ایس کی سماجی خدمات اور رضا کارانہ سرگرمیوں کا اعتراف کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ اعتراف بھارتی معاشرے کے لیے گہرے تضاد کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسی تنظیم جو اپنا تعارف فلاحی کاموں اور سماجی خدمات کے نام پر کراتی ہے لیکن پس پردہ اس تنظیم کا ایسا بیانیہ کام کرتا ہے جو مذہبی تعصب، انتہا پسندی اور اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت کو فروغ دیتا ہے۔
آر ایس ایس کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو اس تنظیم کا قیام 1925 میں ناگپور میں عمل میں لایا گیا جس کے بانی ڈاکٹر کیشوا بلی رام ہیڈگوار تھے۔ ڈاکٹر کیشوا نے اس تنظیم کو ہندو شناخت کے طور پر پیش کیا جس کا مقصد ہندوؤں کو مضبوط بنانا اور ہندو نوجوان طبقہ کو فکری اور نظریاتی تربیت فراہم کرنا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس اپنے مقاصد کے بجائے ایک سخت گیر نظریاتی پلیٹ فارم میں تبدیل ہوگئی جس نے بھارت کی اندرونی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس تنظیم نے ہندوتوا کے تصورات اختیار کر لئے جس کا مطلب بھارت کو خالصتاً ہندو شناخت سے وابستہ کرنا اور دیگر نسلی یا مذہبی گروہوں کو ثانوی حیثیت دینا تھا۔ یہ نظریہ آنے والے برسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بنیاد بنا جو آج نریندر مودی کی قیادت میں موجود ہے۔
وزیر اعظم مودی نے آر ایس ایس کو دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم قرار دیا تاہم یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی آر ایس ایس نے فلاحی کام کئے یا اس کی اصل شناخت اور پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مودی کے اس اعتراف نے آر ایس ایس کا حقیقی چہرہ مزید نمایاں کر دیا ہے۔ اگر بھارت خود کو سیکولر، جامع، اور کثیرالجہتی جمہوریت قرار دیتا ہے تو پھر ایسی تنظیم کو خدمت کی مثال کے طور پر پیش کرنا سنگین تضاد ہے۔
مودی اس بیان سے صرف آر ایس ایس کی سیاسی حمایت نہیں کر رہے بلکہ یہ بیان واضح دلیل ہے کہ بھارتی ریاست اب انتہا پسندوں کے ساتھ ہے۔ یہ موقف بھارت کو جمہوریت سے ہٹا کر جارحانہ اکثریت پسندی کی جانب لے جانے والے خطرناک نظریاتی رجحان کی علامت ہے۔
آر ایس ایس کے اس تباہ کن ایجنڈے نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد، عدم برداشت اور نفرت کو نظریاتی جواز فراہم کر دیا ہے۔ مسلمانوں کو غیر اور قابل نفرت قرار دینا، عیسائی برادری پر مذہب کی تبلیغ کے الزامات لگانا، سکھوں پر علیحدگی پسندی کا ٹھپہ لگانا اور دلتوں کو معاشرتی و سماجی لحاظ سے پسماندہ رکھنا سب آر ایس ایس کی براہِ راست یا بالواسطہ پالیسیوں کے نتائج ہیں۔
گزشتہ تین دہائیوں میں درجنوں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں گائے ذبیحہ کے نام پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا، مذہبی مقامات پر حملے کئے گئے اور اقلیتوں کو اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ اسی نظریے کا تسلسل ہے جس کا آر ایس ایس نے ہندو قوم پرستی کے نام پر پرچار کیا۔ یہی وہ نام نہاد خدمت ہے جس نے مودی کو آر ایس ایس کی تعریف پر مجبور کیا۔
گذشتہ سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کی سرگرمیاں خدمات اور امن سے زیادہ تقسیم، نفرت انگیز تقاریر اور پرتشدد کارروائیوں پر مشتمل ہیں۔ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے دوران آر ایس ایس کے ایک رکن نے مہاتما گاندھی جیسے رہنما کو قتل کر دیا جس سے آر ایس ایس کے عزائم آشکار ہوگئے۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آر ایس ایس فلاحی مراکز، اسپتال اور تعلیمی ادارے چلاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تنظیم میں اندرونی طور پر سخت گیر نظریاتی تربیت دی جاتی ہے جس کا مقصد ہندو نوجوانوں کی سوچ کو شدت پسندی اور نام نہاد قوم پرستی سے آلودہ کرنا ہے۔ یوں یہ نفرت پر مبنی ایسی ذہن سازی ہے جس کے اثرات بھارت کے سماجی دھارے کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں۔
بھارت اپنے آئین کے تحت سیکولر ریاست ہے، ایسی ریاست جس میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں لیکن آر ایس ایس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے بھارت کی یہ شناخت کھوکھلی کر دی ہے۔ موجودہ بی جے پی حکومت مودی کی قیادت میں آر ایس ایس کے ان نظریات کو اپنی پالیسیوں میں ڈھال رہی ہے۔
مثال کے طور پر شہریت کا ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز جیسے اقدامات مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، آزادی اظہار پر پابندیاں اور تنقید کرنے والوں کو ڈرانے کے لیے ریاستی اداروں کا استعمال بھارت کو جمہوریت کے بجائے اکثریتی آمریت میں تبدیل کر رہا ہے۔
مودی کا یہ بیان ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال پر عالمی ادارے اور بیشتر ممالک کی حکومتیں تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی (USCIRF) نے متعدد بار بھارت کو مذہبی آزادیوں کی سنگین خلاف ورزیوں والا ملک قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے معتبر ادارے بار بار بھارتی حکومت سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ اقلیتوں کے خلاف تشدد روکنے کے لیے اقدامات کئے جائیں لیکن مودی نے آر ایس ایس کو دنیا کی سب سے بڑی این جی او قرار دے کر نہ صرف ایسے خدشات مسترد کر دیے بلکہ ان پر پردہ ڈالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ یہ سخت گیر رویہ بھارت کے لیے عالمی سطح پر مزید تنہائی کا سبب بن رہا ہے کیونکہ دنیا جمہوری اقدار کا دعویٰ کرنے والے ملک کو مذہبی انتہا پسندی کا سرپرست بنتے دیکھ رہی ہے۔
آر ایس ایس کی سوچ صرف بھارت تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے خطے پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش سے متعلق نفرت پر مبنی بیانات، سری لنکا اور نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعات اور مسلم مخالف بیانیہ خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے جو خطے میں امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
حقیقت میں آر ایس ایس این جی او نہیں بلکہ ایک خطرناک نظریاتی مشین ہے جو بھارت کو سماجی ہم آہنگی کے بجائے نفرت اور تقسیم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ نریندر مودی کے بیانات متعدد مرتبہ ایسا تاثر دے چکے ہیں کہ حکومت اور آر ایس ایس ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
بھارت یوں تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ آر ایس ایس کا وہ نظریہ اختیار کر چکا ہے جو نفرت، جبر و تشدد اور اقلیت دشمنی پر مبنی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کا سیکولر چہرہ دنیا کے سامنے محض ایک کھوکھلا دعویٰ رہ گیا ہے۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر عظیم گل نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں فیکلٹی ہیں۔
View all posts