بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک بھارت کا سیکولرزم آر ایس ایس کے نظریے کی بھینٹ چڑھ گیا اقلیتی برادری خصوصا مسلمان سکھ اور عیسائی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس نے دو قومی نظریے کے تحت بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم کو درست ثابت کر دیا- بھارت موجودہ حکمران طبقے کے ہندوتوا اور انتہا پسندی کی پالیسیوں کی رہی سہی عزت بھی کھو چکا ہے۔ بھارتی سرکار کا اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا ایک منظر 15 اگست کی تقریبات کے دوران پیش ایا جب مشرقی پنجاب کے گاؤں کلسانہ کے سرپنچ گردھیان سنگھ کو یوم آزادی کے موقع پر نام نہاد قومی اتحاد دکھاوے کی خاطر لال قلعہ میں منعقدہ تقریب میں باضابطہ دعوت نامہ کے باوجود اس بناء داخل ہونے سے روک دیا کہ وہ سکھ مذہب کی مقدس کرپان ساتھ لائے تھے جو سکھوں کے عقائد کا ایک لازمی حصہ اور شناخت ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 25 اور انڈین سپریم کورٹ کے 2006 کے فیصلے کے تحت سکھوں کو کرپان کے ہمراہ نقل و حرکت کی اجازت ہے۔
گردھیان سنگھ کو روکنا براہ راست آئینی خلاف ورزی ہے اس سے یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ بھارت کا نام نہاد سیکولر آئین صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ اگر کوئی ہندو تلک یا دیگر مذہبی علامات کے ساتھ تقریب میں جاتا تو کیا اسے بھی روک لیا جاتا۔ بھارتی جمہوریت میں مساوات کے نام نہاد دعوے محض اکثریتی برادری کے لیے ہیں۔
شرمنی گردوارہ پر بندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) نے اس شرمناک واقعے کو سکھ مذہب کی روایت کے خلاف بے ادبی قرار دیا کمیٹی نے واضح کیا کہ بھارتی سرکار شعوری طور پر سکھ شناخت کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے دیگر سکھ رہنماؤں کا موقف ہے کہ ایک سرپنچ کے ساتھ ایسا رویہ برتا جا سکتا ہے تو عام سکھ کا کیا حال ہوگا۔
یہ امر تشویش ناک ہے کہ ہندو علامات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں اس واقعے سے سکھوں کے اندر پائی جانے والی بے چینی مزید بڑھ گئی ہے اس واقعے نے مودی حکومت کی اقلیتوں کے ساتھ استحصال اور بے حسی کو آشکارا کر دیا جو سکھ برادری پر پابندیوں کا تسلسل ہے۔ اس واقعے سے سکھوں کے اندر پائی جانے والی بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔
مودی سرکار کے دوہرے معیار سے کینیڈا امریکہ برطانیہ اور دیگر ملکوں سمیت بھارت کے اندر بھی خالصتان تحریک دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ چنانچہ خالصتان تحریک کو دبانے کے لئے ریاستی دہشتگردی پالیسی کے تحت تحریک کے متعدد قائدین کو قتل کروادیا گیا۔ عالمی برادری ریاستی سطح پر دہشتگردی کے فروغ اور سرپرستی پر مبنی بھارت کی خارجہ پالیسی سے بخوبی واقف ہوچکی ہے۔
بھارت نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر کرتار پور راہداری کو طویل عرصے سے بند کر رکھا ہے تاکہ سکھ اپنے مقدس مقام پر حاضری سے محروم رہیں۔ سکھوں کے مذہبی حقوق کو سفارتی و داخلی سطح پر مسلسل پامال کیا جائے۔
اس امر سے پوری عالمی برادری واقف ہے کہ مسلمان خصوصا مقبوضہ جموں و کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے لیے بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ مظلوم کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کے لیے بھارتی مظالم اور تشدد کا مقابلہ کر رہے ہیں مقبوضہ وادی میں ہر پانچویں شہری پر ایک فوجی تعینات ہے اور تقریبا سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں نے پوری وادی کواپنے محاصرے میں لے رکھا ہے، 2019 میں ترمیم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بدلنے کے بعد اب مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پُتلی ریاستی حکومت کے پاس میونسپل کمیٹی جتنے بھی اختیارات نہیں رہے۔
بھارتی نیتا اقلیتوں کے آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کرتے رہے انہیں دیوار سے لگانے کا سلسلہ نہ روکا تو نہ صرف بھارت کی عالمی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ اسی روش کے باعث بھارت میں اندرونی طور پر بغاوت اور انتشار بڑھے گا۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر جمہوری اقدامات کے پس پردہ چھپے تعصب اور ناانصافی کو پہچانے۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔
View all posts