مودی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کئی دہائیوں پر محیط ایک ایسا مسئلہ ہے جو وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اختلاف صرف زمین کے ٹکڑوں تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے خطے کی سیاست، عالمی طاقتوں کے تعلقات اور مستقبل کی سفارتی حکمتِ عملی پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
بھارتی قیادت نے ابتدا میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ چین کے دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی، لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ مختلف مواقع پر بھارت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی، جس سے اس کی پوزیشن کمزور دکھائی دی۔ یہ تضاد اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلند و بانگ دعوے اور بیانات حقیقت میں تبدیلی لانے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔
سن 2020 میں گلوان وادی کا واقعہ اس تنازع کا سب سے نازک موڑ بن گیا۔ دونوں ملکوں کی افواج آمنے سامنے آ گئیں اور جھڑپ میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ یہ واقعہ بھارت کے دعوؤں کے بالکل برعکس نکلا کیونکہ چین نے نہ صرف اپنی پوزیشن قائم رکھی بلکہ فوجی تیاری اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے اپنے قدم اور بھی مضبوط کر لیے۔ اس کے برعکس بھارتی حکومت مسلسل عوام کو یقین دلاتی رہی کہ حالات قابو میں ہیں، حالانکہ زمینی حقیقت کچھ اور تھی۔
یہ تنازع بین الاقوامی سطح پر بھی نظرانداز نہیں ہوا۔ امریکہ، یورپ اور جاپان جیسے بڑے ممالک صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، مگر بھارت کی توقعات کے برخلاف کسی نے بھی اس کے مؤقف کی کھل کر حمایت نہیں کی۔ اس رویے نے ایک اہم حقیقت واضح کر دی کہ عالمی سیاست میں کوئی ملک دوسروں کے لیے اپنے مفادات کو خطرے میں ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ہر ریاست سب سے پہلے اپنے فائدے کو ترجیح دیتی ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان طاقت کا فرق صرف فوجی میدان تک محدود نہیں بلکہ معیشت میں بھی نمایاں ہے۔ چین کی تیز رفتار ترقی اور معاشی برتری نے بھارت کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ دہلی بخوبی جانتی ہے کہ کھلی جنگ چھیڑنا اس کی اپنی معیشت اور سلامتی کے لیے تباہ کن ہوگا، اسی لیے بھارتی قیادت کے پاس مذاکرات اور لچکدار رویہ اپنانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہا۔
یہ صورتحال ایک بڑا سبق دیتی ہے کہ طاقت کا توازن محض نعروں یا بیانات سے نہیں بدلا جا سکتا۔ اصل قوت ایک مضبوط معیشت، حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اور مؤثر سفارتکاری میں پوشیدہ ہے۔ بھارت نے اگرچہ دنیا کو اپنی سخت پالیسیوں کا یقین دلانے کی کوشش کی، لیکن عملی طور پر اسے بارہا پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ تنازع مستقبل میں بھی خطے کی پالیسیوں کو متاثر کرتا رہے گا اور یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ عالمی تعلقات میں اصل طاقت وہی ہے جو دعووں کے بجائے عملی اقدامات سے ثابت ہو سکے۔