Nigah

ثبوت کے بغیر سنسنی بھارتی ریاستی بیانیے کی زوال پذیر حقیقت

india kashmir nigah
[post-views]

بھارت کی ریاستی پالیسی میں جھوٹ، پروپیگنڈا اور سنسنی خیزی کوئی نئی بات نہیں۔ خاص طور پر جب بات مقبوضہ کشمیر یا پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے کی ہو تو بھارتی میڈیا اور خفیہ ایجنسیاں کسی بھی اخلاقی یا منطقی حد کی پرواہ کیے بغیر من گھڑت داستانیں تخلیق کرتی ہیں۔ تازہ ترین واقعہ پہلگام میں ہونے والے ایک مبینہ انکاؤنٹر کا ہے جس میں بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ایک مزاحمت کار طاہر کو مارا گیا اور بعد میں یہ خبر پھیلائی گئی کہ اس کی نمازِ جنازہ آزاد کشمیر میں ہوئی جہاں ایک مبینہ لشکر کمانڈر رضوان بھی آیا جسے عوام نے بھگا دیا۔

یہ ساری کہانی بظاہر سننے میں جذباتی اور فلمی معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ تضادات، سوالات اور جھوٹ کی کئی تہوں میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ واقعہ محض ایک جھوٹ نہیں بلکہ بھارت کی طویل عرصے سے جاری اس مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا اور اپنی اندرونی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔

جھوٹ پر جھوٹ۔ بھارتی میڈیا کا پراپیگنڈا ماڈل۔

بھارتی میڈیا اپنے فوجی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر ایسا بیانیہ تراشتا ہے جو عام بھارتی شہری کو جذباتی طور پر برانگیختہ کرے اور بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب بھارتی میڈیا نے ایسے بے بنیاد دعوے کیے ہوں۔ کبھی سرجیکل اسٹرائیک، کبھی بالاکوٹ حملہ اور کبھی پاکستانی دہشت گرد مارنے کے دعوے۔

ان سب کی بنیاد محض ایک اسکرپٹ ہوتی ہے جسے زمینی حقائق کے بجائے جذبات اور نفرت پر استوار کیا جاتا ہے۔

پہلگام کی حالیہ مثال بھی اسی حکمتِ عملی کا تسلسل ہے۔ ایک مبینہ مزاحمت کار کی ہلاکت کا ڈرامہ رچایا گیا جس کا بعد میں آزاد کشمیر سے تعلق جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹنگ میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ جنازے میں ایک معروف کمانڈر رضوان شریک تھا جسے عوام نے پہچان کر بھگا دیا۔ لیکن نہ کوئی ویڈیو، نہ کوئی گواہی، نہ کوئی ثبوت۔ صرف الف لیلوی بیانیہ۔

جنازہ کہاں؟ لاش کیسے؟ تضادات بے نقاب

بھارت کے اس دعوے میں سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ اگر کوئی مزاحمت کار مقبوضہ کشمیر میں مارا گیا تو اس کی لاش آزاد کشمیر کیسے پہنچی؟ لائن آف کنٹرول (LOC) پر سخت نگرانی ہے اور بھارت خود ہر وقت یہ شور مچاتا ہے کہ پاکستانی دراندازی کو روکا جا رہا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خود اس لائن پر لاشیں عبور کرا سکتا ہے؟

یہ ایک سادہ سوال ہے جس کا جواب بھارتی میڈیا یا حکام کے پاس نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس طاہر نامی شخص کی بات کر رہے ہیں اس کا کوئی ریکارڈ نہ تو پاکستان میں موجود ہے نہ ہی کسی جہادی تنظیم کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ پوری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے، جس کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔

رضوان کون؟ خیالی کرداروں کی فوج۔

بھارتی میڈیا نے جس رضوان نامی کمانڈر کا ذکر کیا اس کا نہ تو پاکستان میں کوئی وجود ہے نہ ہی ایسی کسی تنظیم نے اس نام کے کسی کمانڈر کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ لشکرِ طیبہ جیسی تنظیمیں برسوں پہلے پاکستان میں کالعدم قرار دی جا چکی ہیں اور ریاستی ادارے مسلسل ان پر کارروائیاں کرتے آئے ہیں۔ پھر بھی بھارت مسلسل ان تنظیموں کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ صرف اپنے اندرونی مسائل چھپانے کے لیے۔

یہ کردار رضوان محض بھارتی اسکرپٹ کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد اس واقعے کو سنسی خیز بنانا اور عوامی جذبات کو برانگیختہ کرنا ہے۔ بھارتی میڈیا کے لیے یہ محض ایک کہانی ہے، ایک سرخی، ایک اشتعال انگیز مواد، تاکہ ٹی آر پی بڑھے اور قومی بیانیہ پاکستان مخالف سمت میں مرکوز رہے۔

نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسیوں کی ناکامیوں کا پردہ۔ روز نیا جھوٹ۔

نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) بھارت میں انسداد دہشت گردی کا مرکزی ادارہ ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے۔ این آئی اے پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ شواہد کے بغیر گرفتاریاں کرتی ہے، اقلیتوں کو نشانہ بناتی ہے اور عدالتوں میں اکثر اس کے مقدمات کمزور ثابت ہوتے ہیں۔

پہلگام کیس بھی اسی طرز کی ایک مثال ہے۔ جب کسی تحقیق یا ثبوت کے بغیر پاکستان پر الزام لگا دیا جائے اور بعد میں کہانی میں اتنے تضاد ہوں کہ خود بھارتی عوام بھی سوال اٹھانے لگیں، تو یہ این آئی اے کی پیشہ ورانہ ناکامی ہے۔ یہ ناکامی اب عالمی سطح پر بھی بے نقاب ہو رہی ہے، جہاں مختلف ادارے بھارت کے جھوٹے بیانیے کو مسترد کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی ردعمل۔ بھارت کی رسوائی۔

اب دنیا بھی بھارت کی اس پراپیگنڈا مشینری سے تنگ آچکی ہے۔ مختلف بین الاقوامی ادارے، صحافی اور تجزیہ نگار بارہا اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ بھارت کا دہشت گردی کے خلاف بیانیہ اکثر جھوٹ، مبالغہ اور سیاسی مقاصد سے بھرا ہوتا ہے۔ فیک نیوز، جعلی ویڈیوز اور جھوٹے اعترافات یہ سب بھارت کے انسداد دہشت گردی ماڈل کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

حالیہ مثالوں میں بی بی سی، الجزیرہ اور نیویارک ٹائمز جیسے ادارے بھارتی بیانیے کو چیلنج کر چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی بھارتی پراپیگنڈے کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ہر نیا جھوٹ، بھارت کی اپنی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا رہا ہے۔

پاکستان کا موقف۔ حقائق اور وضاحت۔

پاکستان نے ہمیشہ واضح موقف اپنایا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی حمایت صرف سفارتی، اخلاقی اور سیاسی سطح پر کرتا ہے۔ پاکستان کا ریاستی بیانیہ کسی بھی دہشت گردی کی حمایت کی نفی کرتا ہے۔ بھارت جب بھی ایسے بے بنیاد الزامات لگاتا ہے پاکستان ان کا مدلل جواب دیتا ہے اور اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی فورمز پر ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔

پاکستانی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کے پاس واقعی کوئی ثبوت ہے تو وہ عالمی عدالتوں میں لے کر آئے، مگر ہر بار بھارتی الزامات صرف میڈیا کی حد تک محدود رہتے ہیں۔ عدالت یا عالمی سطح پر کبھی ان کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔

جھوٹ کی عمارت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔

پہلگام کے واقعے کی بنیاد پر جو جھوٹا بیانیہ بھارت نے تشکیل دیا ہے، وہ روز بروز اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ جب حقائق، منطق اور ثبوتوں کا فقدان ہو اور صرف سنسی، جذبات اور نفرت پر مبنی بیانیہ تراشا جائے تو وہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔

بھارتی میڈیا، این آئی اے اور دیگر ادارے صرف اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور داخلی دباؤ ہٹانے کے لیے پاکستان کو نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن آج کی دنیا باخبر ہے عالمی رائے عامہ اب یکطرفہ بیانیے پر یقین نہیں رکھتی۔

اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد عبداللہ

    محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔