Nigah

جنگلات قومی سلامتی اور معیشت کی پہلی دفاعی لائن

nigah jungle fire

وطن عزیز کے لئے جنگلات محض درخت نہیں بلکہ ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔ یہ بارش کے پانی کو جذب کرکے فلش فلڈز کو روکتے ہیں، زیر زمین پانی کو ری چارج کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی زمین کو کٹاؤ سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو معیشت کے لئے پانی اور مٹی کی زرخیزی کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

خیبرپختونخوا سمیت پورا ملک اس وقت ایک نہایت سنگین ماحولیاتی موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ جنگلات کی کٹائی، چراگاہوں کی تباہی، جنگلات میں لگنے والی آگ اور ماحولیاتی تبدیلی سے منسلک خطرات براہِ راست تباہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ کا باعث بن رہے ہیں۔

1992 سے اب تک جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد کمی ہو چکی ہے، جبکہ چراگاہیں صرف 20 سے 30 فیصد تک اپنی ممکنہ بایو ماس پیداوار کر رہی ہیں، جس میں خیبرپختونخوا کا حصہ زیادہ ہے۔ 1992، 2010 اور 2025 کے تباہ کن سیلاب ثابت کرتے ہیں کہ جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی نے بالائی علاقوں کے واٹر شیڈز کو "سیلابی فیکٹریوں” میں تبدیل کر دیا ہے۔

nigah forest impossibe

قارئین کرام! جنگلات آب و ہوا کا توازن قائم رکھنے سمیت درجہ حرارت کم اور کاربن کو ذخیرہ کر کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بھی کم کرتے ہیں۔ یہ دہی آبادی کے لیے چارہ، ایندھن، پھل، دوائیں اور سیاحت کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ملک کو سیلاب، لینڈ سلائیڈ اور قحط جیسے خطرات سے بھی بچانے میں اپنا لاثانی کردار ادا کرتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 1992 میں 3.78 ملین ہیکٹر سے کم ہو کر 2025 میں 3.09 ملین ہیکٹر ہو چکا ہے یعنی جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ سالانہ جنگلات کی کٹائی 1992 میں تقریباً 40 ہزار ہیکٹر تھی لیکن حکومت کی مداخلت اور پابندیوں کے باعث کم ہو کر 2025 میں 11 ہزار ہیکٹر سالانہ ہو گئی ہے جو تشویشناک صورت حال ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں سالانہ اب بھی 11 ہزار ہیکٹر کی کٹائی جاری ہے۔ چراگاہوں کا رقبہ 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد ہوگیا ہے، اور چراگاہوں کی بایو ماس پیداوار 100 فیصد ممکنہ پیداوار سے کم ہو کر 20 فیصد رہ گئی ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق چترال میں 1992 سے 2009 کے درمیان 3700 ہیکٹر سے زائد جنگلات ختم ہو گئے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ 2030 تک مزید 23 فیصد کمی متوقع ہے۔

کالام سوات میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر لکڑی کاٹنے سے دریائے سوات کے کیچمنٹ ایریا کو شدید نقصان پہنچا، جس نے 1992 اور 2010 کے سیلابوں کو مزید تباہ کن بنا دیا۔ جنگلات کی کٹائی اب بھی ڈھلوانوں کو کمزور اور اچانک آنے والے سیلاب کے خطرات کو بڑھا رہی ہے۔ یہ تباہی صرف چند اضلاع تک محدود نہیں۔

بونیر میں رواں اگست 2025 کے کلاؤڈ برسٹ نے اچانک آنے والے سیلاب کو جنم دیا، جس نے گھروں، کھیتوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ جنگلات سے محروم پہاڑ بارش کے پانی کو روک نہ سکے۔

اسی طرح بٹگرام میں نازک اراضی ڈھانچے اور جنگلات کی کٹائی نے لینڈ سلائیڈز کو جنم دیا، جنہوں نے قراقرم ہائی وے بند کر دی اور شمالی پاکستان کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔

باجوڑ میں 2025 کے ایک مہلک کلاؤڈ برسٹ سیلاب نے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ سڑکیں اور پل بہا دیے۔

مانسہرہ میں بار بار کلاؤڈ برسٹ سے اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈز آئیں، جبکہ گلگت بلتستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے، جس سے یہ خطہ جنگلاتی آگ اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات کے لیے نہایت حساس ہو گیا ہے۔

nigah fire tree

سرحد کنزر ویشن نیٹ کے کنونئیر ڈاکٹر عادل ظریف کا کہنا ہے کہ جنگلات بارش کے نظام کو متوازن رکھتے ہیں، زیر زمین پانی کو ری چارج کرتے ہیں اور ڈھلوانوں کو مستحکم بناتے ہیں۔ جب یہ ختم ہو جائیں تو ننگی پہاڑیاں جنگلوں سے ڈھکے علاقوں کے مقابلے میں 5 سے 8 ڈگری زیادہ گرم ہو جاتی ہیں، جس سے مون سون کی ہوائیں تیزی سے بلند ہو کر اچانک کلاؤڈ برسٹ پیدا کرتی ہیں، بجائے اس کے کہ مسلسل بارش ہو۔ جڑوں کے بغیر مٹی کو سہارا نہیں ملتا اور لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے تودے عام ہو جاتے ہیں جبکہ گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر عادل نے کہا کہ ماحولیاتی تباہی براہ راست انسانوں کو متاثر کر رہی ہے۔ ایک مختاط اندازے کے مطابق خیبرپختونخوا میں تقریباً ایک تہائی گھرانے مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں لیکن چراگاہوں کی پیداواریت، بے جا چرائی اور بدانتظامی کے باعث صرف 20 سے 30 فیصد رہ گئی ہے۔ جو خاندان پہلے جنگلات سے چارہ اور ایندھن حاصل کرتے تھے وہ اب مزید غیر پائیدار طریقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔

حاصل بحث یہ ہے کہ اگر فوری طور پر بحالی اور مضبوط اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کو بڑے ماحولیاتی اور معاشی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مؤثر پالیسی تشکیل دے کر اس پر مکمل عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے۔

اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔