Nigah

دو قومی نظریہ پاکستان کی فکری اور نظریاتی بنیاد

nigah ideology

برصغیر پاک و ہند کی صدیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی جداگانہ تہذیبی و مذہبی شناخت مسلمہ حقیقت رہی ہے۔ ایک ہی خطے میں رہتے ہوئے ان دونوں اقوام کی زبان، مذہب، طرزِ زندگی اور رسم و رواج میں واضح فرق تھے۔ مسلمان اسلام کے نام لیوا تھے جن کا نظام حیات عدل و انصاف اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔ دوسری جانب ہندو سماج مذہبی امتیازات اور ذات پات کی تقسیم میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسی بنیادی فرق کی وجہ سے ہندوستان میں دو قومی نظریہ کا جنم ہوا جس نے برصغیر کی تاریخ کو نئے موڑ پر لا کھڑا کیا۔

سب سے پہلے سر سید احمد خان نے اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ صدیوں تک اکٹھے رہنے کے باوجود مسلمان اور ہندو ایک قوم نہیں بن سکے۔ سرسید کے بعد علامہ محمد اقبال نے 1930 میں خطبہ الہ آباد میں یہ تصور پیش کیا کہ مسلمانانِ برصغیر کے لیے الگ خطہ زمین ہونا چاہئے جہاں وہ آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور رسوم و رواج کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اس خواب کو طویل اور انتھک جدوجہد کے بعد عملی شکل دینے میں کامیاب ہوئے۔ بابائے قوم کا فرمان تھا کہ ہم مسلمان جدا قوم ہیں، ہماری اقدار، تاریخ اور روایات یکسر مختلف ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنی ریاست ضرور چاہیے۔ یہ فرمان تحریکِ پاکستان کی جدوجہد کا بنیادی مطالبہ تھا۔ اس طرح 14 اگست 1947 کو دو قومی نظریے کا خواب پاکستان کے قیام کے ساتھ حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔

nigah Qoum isdeology

قیامِ پاکستان کے ساتھ اس نظریہ کی اہمیت ختم نہیں ہوئی بلکہ مملکتِ خداداد پاکستان کے ہر شعبے میں نظریہ پاکستان کی جھلک نظر آتی ہے۔ وطنِ عزیز کے آئین میں اسلام کو ریاست کی رہنمائی کا مرکزی ستون قرار دیا گیا۔ ہماری زبان، معاشرتی اقدار اور ثقافت سب اسلامی نظریے کے تابع ہیں۔ یہ نظریہ پاکستان کو صرف علاقائی نہیں بلکہ نظریاتی ریاست بناتا ہے۔

موجودہ جدید دور میں تہذیبی سرحدیں مٹ رہی ہیں۔ ان حالات میں دو قومی نظریہ پاکستان کے لیے پہلے سے زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ مغربی ممالک میں "ایک عالمی ثقافت” اور سیکولرازم کے فروغ جیسے بیانیے کے ذریعے چھوٹی قوموں کی شناخت مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم پاکستان اسلام کے بنیادی اصولوں پر قائم ہوا ہے اس لئے شناخت کھو دینا ترقی نہیں ہوگی بلکہ اپنے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔

پاکستان کا وجود
دنیا بھر کے سامنے ببانگ دہل اعلان ہے کہ اسلام اور مسلمان اپنی الگ شناخت اور تہذیب رکھتے ہیں اور اسی اسلامی شناخت کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ انتہائی بہتر اور مثبت انداز میں تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں۔

نظریہ پاکستان ہماری نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ہمارے نوجوان اس سچائی سے آگاہ ہیں کہ صرف معاشی ترقی قوم کے لیے ضروری نہیں بلکہ نظریاتی اساس پر کاربند رہنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ کوئی بھی قوم اپنی فکری بنیاد فراموش کر دے تو اس کا مستقبل بے سمت ہو جاتا ہے۔

خوش آئند اور مثبت پہلو یہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو نظریہ پاکستان سے متعلق آگاہی دی جارہی ہے۔ انہیں یہ شعور بھی دیا جا رہا ہے کہ یہ نظریہ نفرتوں کا نہیں بلکہ اپنے وجود کے مثبت اعلان کا نام ہے۔ ہمارے نوجوان ہی مملکتِ خداداد پاکستان کے اصل محافظ ہیں جو پاکستان کی شناخت کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

نظریہ پاکستان درحقیقت اسلامی رواداری اور امن پسندی کا عکس ہے۔ اسی اسلامی اصول کے تحت ریاست نے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے تحفظ پر زور دیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد بابائے قوم نے اپنی تقاریر میں ببانگ دہل فرمایا تھا کہ پاکستان میں ہندو، عیسائی اور دیگر اقلیتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمان اکثریت کو حاصل ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دو قومی نظریہ اپنی انفرادیت کے باعث احترام کا پیغام دیتا ہے۔

آج پاکستان کی شناخت عالمی برادری میں ایسی ریاست کے طور پر ہے جو اپنے نظریات کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ نظریاتی ریاست دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے لیے امید کی کرن ہے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا واحد ملک ہے اور پاکستان نے اسی بنیاد پر دنیا بھر میں اپنی شناخت برقرار رکھی ہے۔

نظریہ پاکستان آج بھی اتنا ہی زندہ اور متحرک ہے جتنا 1947 میں تھا۔ یہ نظریہ ہمارے حال اور مستقبل کی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کی بقا نظریہ پاکستان کی ترقی اور اس کا وقار اسی امر سے جڑا ہے کہ وہ اپنی شناختی بنیادوں پر قائم و دائم رہے۔

دو قومی نظریہ پاکستان کی اساس ہے۔ یہ نظریہ واضح کرتا ہے کہ وطنِ عزیز ایمان، اسلامی ثقافت اور شاندار ورثے کے امتزاج سے ہی قائم ہوا ہے اور یہ تمام عناصر آج بھی زندہ اور برقرار ہیں۔ نوجوان نسل اس نظریہ کی اصل محافظ ہے۔ یہی نوجوان نسل پاکستان کو مستحکم اور خوددار ملک بنانے کی ذمہ داری اٹھا رہی ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد سلیم

    محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔