Nigah

سکھوں کامقدس اور تاریخی مقام کرتارپور گرودوارہ سیلاب میں ڈوب گئی

nigah image sikh kartarpur gurdawar
[post-views]

بھارتی آبی جارحیت

کرتارپور کا نام سنتے ہی دل میں عقیدت اور سکون کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو صرف ایک عمارت نہیں بلکہ روحوں کا سہارا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں جو کچھ ہوا، اس نے ہر دل کو غمگین کر دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے بعد پنجاب کے کئی علاقے سیلاب کی لپیٹ میں آئے اور اسی آفت نے سکھوں کے اس مقدس مقام کو بھی ڈھانپ لیا۔ کرتارپور گرودوارہ کا سیلاب میں ڈوب جانا ایک ایسی خبر تھی جس نے ہر سننے والے کو افسردہ کر دیا۔

یہ وہی جگہ ہے جہاں بابا گورو نانک جی نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے تھے۔ دنیا بھر کے سکھوں کے لیے یہ مقام ایک خواب جیسا ہے، ایک امید جیسا ہے۔ جب برسوں کی دعاؤں کے بعد کرتارپور کوریڈور کھولا گیا تو یوں لگا کہ فاصلے مٹ گئے ہیں، لیکن اب پانی کے اس ریلا نے پھر سے دلوں پر بوجھ ڈال دیا ہے۔ عقیدت مندوں کی آنکھوں میں بے بسی صاف جھلکتی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ صرف اینٹ اور پتھر کی عمارت نہیں بلکہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ اس مقام کی حفاظت کو ترجیح دی ہے، لیکن قدرتی آفات اور ہمسایہ ملک کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کے اقدامات نے حالات کو مشکل بنا دیا ہے۔ بھارت کی اس روش نے نہ صرف زمینوں اور گھروں کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ایک ایسے مقام کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے جس کی عظمت کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔

دنیا بھر کے سکھ رہنماؤں نے اس حادثے پر شدید دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرتارپور صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ ان کی تاریخ، ورثہ اور شناخت کا حصہ ہے۔ ایسے مقامات کو نقصان پہنچنا گویا ایک قوم کی یادداشت کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ یہ صرف سکھ برادری کا نقصان نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستانی حکام فوری طور پر مرمت اور بحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں، تاکہ اس مقدس مقام کی رونق اور عظمت واپس لائی جا سکے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کب تک ایسے مسائل بار بار سامنے آتے رہیں گے؟ جب تک دونوں ممالک پانی کے مسئلے پر ایک مؤثر اور مشترکہ حکمت عملی اختیار نہیں کریں گے، تب تک اس طرح کی آفات روحانی اور ثقافتی ورثے کو خطرے میں ڈالتی رہیں گی۔

کرتارپور کا ڈوب جانا صرف ایک خبر نہیں بلکہ ایک سبق بھی ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ عبادت گاہیں انسانیت کی پہچان ہیں، اور ان کی حفاظت سب پر لازم ہے۔ یہ مقام محبت، امن اور بھائی چارے کا نشان ہے، اور اگر ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے تو آنے والی نسلیں ہماری کوتاہی کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔

اوپر تک سکرول کریں۔