بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ گذشتہ آٹھ دہائیوں سے عالمی سطح پر تنازع کا سبب ہے۔ معصوم کشمیری عوام نہ صرف اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں بلکہ طویل عرصے سے بھارتی ظلم و ستم سے نجات کیلئے کوشاں ہیں۔ ان حالات میں حکمران بی جے پی نے لوک سبھا میں جموں و کشمیر ترمیمی بل 2025 پیش کیا یے جو مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
جب بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے یہ بل ایوان میں پیش کیا تو بیشتر اراکین نے شدید ردعمل دیتے ہوئے اس بل کو کھلی آمریت قرار دیا۔
2019 میں بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکلز 35A اور 370 کو ختم کردیا تھا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی گئی تھی۔ بھارتی حکومت نے اس اقدام سے اپنے ہی آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو روندتے ہوئے کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ مودی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت جلد بحال کردی جائے گی۔ ان وعدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیری عوام کو ریاستی حیثیت بحال ہونے کی امید تھی لیکن آج چھ برس بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ اب ایک نیا بل پیش کردیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوگیا کہ بھارت کی موجودہ قیادت کا مقصد جموں و کشمیر پر مرکزی حکومت کی گرفت مضبوط کرنا ہے۔
نئے ترمیمی بل میں منتخب حکومت کے اختیارات محدود کرنے کی کئی تجاویز دی گئی ہیں۔ ترمیمی بل کے مطابق وزیر اعلیٰ، وزراء اور دیگر سیاستدانوں کو کسی مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہونے کی صورت پر معطل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح لیفٹیننٹ گورنر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ وزیر اعلٰی اور وزراء کو بغیر کسی عدالتی فیصلے یا سزا کے صرف 30 دن تک حراست میں رکھ سکے اور انہیں برطرف بھی کرا سکے۔ مزید برآں اگر گرفتار شدہ وزیر یا وزیر اعلیٰ رہا بھی ہو جائے تو اس کی دوبارہ تقرری ممکن تو ہوگی۔ یقینی طور اس عمل سے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی فضا میں اضافہ ہوگا۔ ایسے اقدامات یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں آزاد اور خود مختار سیاسی عمل کو کچلنا چاہتی ہے۔
جمہوریت کا اصول یے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو عدالت کے فیصلوں سے ہی نااہل یا برطرف کیا جاسکتا ہے۔ مگر مودی حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر جو ایک غیر منتخب شخص ہے کو یہ اختیارات دے دئیے ہیں۔ واضح رہے کہ لیفٹیننٹ گورنر براہِ راست مرکز کی ہدایات اور احکام کا پابند ہوتا ہے۔ منتخب نمائندوں کو عدالتی فیصلے کے بغیر اقتدار سے بے دخل کرنے جیسے اقدامات جمہوری اصولوں اور عوامی مینڈیٹ کیلئے خطرناک ثابت ہوں گے۔
اس ترمیم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں سیاسی بنیادوں پر گرفتاریوں کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے کیونکہ پہلے ہی جموں و کشمیر اسمبلی کے اختیارات کسی بلدیہ کمیٹی کے برابر ہیں اور اب جمہوری ڈھانچے کی مسماری کیلئے وزیر اعلیٰ، وزراء اور دیگر سیاستدانوں کے خلاف ایسے اقدامات ہی کافی ہوں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ایسے خدشات بھی لاحق ہیں کہ یہ سیاہ قانون بعد میں تمام بھارت پر نافذ کر دیا جائے گا تاکہ دہلی میں مرکزی حکومت بھارت کے کسی بھی حصہ یا صوبہ میں مخالف سیاسی جماعت کی حکومت کو قابو میں رکھ سکے۔
اس ترمیم کے ذریعے بھارتی حکومت خطے میں بداعتمادی، بےچینی اور تصادم کے بیج بو رہی ہے تاکہ جموں و کشمیر کے عوام کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں اور ان کے منتخب کردہ نمائندے مرکزی حکومت کی منشاء کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر کے عوام سیاسی اور انتخابی عمل سے الگ ہوجائیں گے۔
اس بل میں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا یے اور ایسے نظام کا قیام چاہتی ہے جہاں مرکزی حکومت تمام اختیارات کی مالک ہو۔
بھارتی حکومت کو کئی ایک بڑے اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں جن کا سامنا کرنے میں وہ مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔ آپریشن سندور کی ذلت آمیز ناکامی کے بعد اندرونی طور پر مودی حکومت اور بھارتی فوج کی اہلیت پر مسلسل سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اسی طرح امریکی تجارتی پابندیاں بھی معاشی بوجھ بڑھا رہی ہیں۔ حالیہ انتخابی دھاندلیوں میں ملوث ہونا بھی بھارت کے سیاسی بحران میں مسلسل اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت اور خصوصی درجے کی بحالی جیسے مطالبات بھی بڑھتے جاریے ہیں۔
ان سنگین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے بھارتی حکومت نے بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز مہم تیز کردی ہے اور خود کو دہشت گردی کا شکار ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارت اس غیر جمہوری رویہ کی وجہ سے عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔
جموں و کشمیر تنظیم نو بل 2025 کے ذریعے مودی حکومت نے عوام کے آئینی و جمہوری حقوق پر شب خون مارا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں طاقت صرف چند ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ بھارت کے ریاستی جبر و استبداد کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کا عزم و استقلال اب بھی برقرار ہے۔
بھارتی عوام کو علم ہے کہ حقِ خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے جابرانہ قوانین کے باوجود آزادی کی تحریک مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔ ان حقائق کا ادراک نہ کیا گیا تو بھارت اندرونی طور پر معاشرتی و سیاسی بحران کا شکار ہوجائے گا جس کے نتیجے میں خطے کا امن بھی داؤ پر لگے گا۔
دنیا میں جمہوریت کے علمبردار ممالک کو بھارت کے نامناسب رویے اور غیر جمہوری اقدامات سمیت کشمیر میں بھارت کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں کا فوری نوٹس لے کر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔
View all posts

