افغانستان ایک بار پھر عالمی خبروں میں ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وجہ اس بار بھی دل توڑنے والی ہے۔ طالبان نے نیا حکم جاری کیا ہے جس کے تحت لڑکیوں پر نہ صرف اسکولوں اور کالجوں کے دروازے بند ہیں بلکہ اب انہیں دینی مدارس جانے کی اجازت بھی نہیں رہی۔ یہ فیصلہ اس لیے مزید حیران کن ہے کہ طالبان ہمیشہ مذہبی تعلیم کو اپنی پہچان اور ترجیح بتاتے رہے ہیں۔ مگر جب بچیوں کو اس حق سے بھی محروم کر دیا گیا تو یہ بات واضح ہوگئی کہ اصل مقصد تعلیم کو روکنا نہیں بلکہ خواتین کی دنیا کو محدود کرنا اور ان کے خوابوں کو ادھورا چھوڑ دینا ہے۔
افغان معاشرہ پہلے ہی برسوں کی جنگ، غربت اور بدامنی کا شکار رہا ہے۔ ایسے میں خواتین کو تعلیم سے محروم کرنا نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کر رہا ہے بلکہ پورے معاشرے کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ کسی بھی ملک کی نصف آبادی اگر تعلیم سے باہر ہو تو ترقی ممکن نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پابندی دنیا بھر میں تشویش کا باعث بنی ہے۔
یونیسف کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ افغانستان میں خواتین کی شرحِ خواندگی صرف 30 فیصد کے قریب ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ اور بھی کم ہے۔ یہ شرح پہلے ہی خطے میں سب سے کم ہے۔ ایسے حالات میں مزید پابندیاں لگانا اس بات کا اعلان ہے کہ آنے والی نسلیں بھی ناخواندگی کے اندھیروں میں رہیں گی۔ ایک ماں اگر تعلیم سے محروم ہو تو وہ اپنے بچوں کو بھی آگے نہیں بڑھا سکتی۔ تعلیم صرف ذاتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ پورے خاندان اور معاشرے کے لیے روشنی کا ذریعہ ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ ان فیصلوں کا مقصد اسلامی اصولوں کے مطابق نظام بنانا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کون سے اسلامی اصول لڑکیوں کو تعلیم سے روکنے کی اجازت دیتے ہیں؟ دنیا کے بیشتر مسلم ممالک میں خواتین نہ صرف دینی تعلیم حاصل کرتی ہیں بلکہ دنیاوی شعبوں میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ سعودی عرب، ایران، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا سب جگہ خواتین مذہب اور دنیاوی علوم دونوں پڑھتی ہیں اور مختلف میدانوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اگر اسلام میں تعلیم پر پابندی نہیں تو پھر طالبان کے اقدامات کو صرف مذہبی رنگ دینا حقیقت کو چھپانے کے مترادف ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا صرف خواتین کے مستقبل کو متاثر نہیں کرتا بلکہ قومی معیشت پر بھی براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق خواتین کو لیبر مارکیٹ سے دور رکھنا افغانستان کو ہر سال 1 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایک ایسے ملک کے لیے جو پہلے ہی غربت، بے روزگاری اور پابندیوں کا شکار ہے، یہ نقصان ناقابلِ برداشت ہے۔
افغانستان میں یہ پابندیاں صرف دروازے بند نہیں کر رہیں بلکہ خواب بھی توڑ رہی ہیں۔ بہت سی بچیاں جو عالمہ بننا چاہتی تھیں، قرآن اور حدیث پڑھنا چاہتی تھیں، وہ اب اپنے گھروں تک محدود ہو گئی ہیں۔ تعلیم کی خواہش رکھنے والی ان بچیوں کی آنکھوں میں مایوسی اور دل میں محرومی بڑھ رہی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف انہیں متاثر کرتی ہے بلکہ پورے خاندان کے لیے مایوسی کی ایک زنجیر بن جاتی ہے۔
دنیا بھر سے اس فیصلے پر سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے، جبکہ کئی اسلامی ممالک نے بھی نرمی سے ہی سہی، مگر طالبان کے اس رویے پر اعتراض کیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان کا موقف نہ صرف عالمی برادری بلکہ مسلم دنیا کے اجتماعی فہم سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔
یہ سوال اب ہر طرف زبان زدِ عام ہے کہ طالبان آخر افغانستان کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔ کیا وہ ملک کو ایک بار پھر تاریکی میں دھکیلنے پر تُلے ہوئے ہیں؟ افغان خواتین تو پہلے ہی برسوں سے جنگ، غربت اور جلاوطنی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ اب جبکہ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، ان سے تعلیم کا حق چھین لینا دراصل ان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی سیاہ کر دینے کے مترادف ہے۔ اگر طالبان واقعی چاہتے ہیں کہ افغانستان ایک پُرامن اور باوقار ملک کے طور پر دنیا کے سامنے ابھرے، تو سب سے ضروری قدم خواتین کی تعلیم پر عائد یہ پابندی ختم کرنا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف مذہب کی اصل روح کے خلاف ہے بلکہ انسانی شرافت اور وقار کی بھی نفی کرتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے جب عورت اور مرد دونوں کو برابر مواقع اور علم حاصل کرنے کی آزادی ملے۔