دنیا میں مسافر ہوائی جہازوں کے کریش کر جانے کے کئی ایک واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر ان جہازوں کی تباہی کی وجوہات بھی فوری تحقیقات کے ذریعے کروالی جاتی ہیں اور ان طیاروں میں مارے جانے والے افراد کے پسماندگان کو نہ صرف ان حادثات کے حقائق سے باخبر رکھا جاتا ہے بلکہ متاثرہ خاندانوں کو معاوضوں کی ادائیگیوں کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے حالیہ رونما ہونے والے ائیر انڈیا کی پرواز اے آئی 171 کی تباہی اور اس میں 260 سے زائد شہریوں کی ہلاکت پر جو تحقیقاتی رپورٹ دی ہے اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ طیارے کی تباہی کی وجہ تکنیکی خرابی تھی۔
اس جہاز کے متاثرہ خاندانوں کو معاوضوں کی عدم ادائیگیوں کا سامنا ہے اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی جس سے متاثرہ خاندانوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بھارت کو کئی محاذوں پر رسوائیوں کا سامنا ہے۔ کھیل کا میدان ہو یا پھر جنگ کا، سفارتی محاذ ہو یا اقتصادی، بھارت ہر محاذ پر ناکام ہو چکا ہے۔
اگر ہم سرسری جائزہ لیں تو آج ائیر انڈیا شدید بدانتظامی اور حفاظتی مسائل سے متعلق بحران میں جکڑ چکا ہے۔ ائیر انڈیا کے اے آئی 171 فلائٹ کے حادثے جس میں 260 سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے تھے سے متعلق ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے اور اعتراف کیا گیا ہے کہ یہ طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث حادثے کا شکار بنا۔
بلاشبہ یہ حادثہ بھارتی ایوی ایشن کی بڑی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس حوالے سے ایک بھارتی وزیر مرلی دھر موبول کا کہنا ہے کہ ائیر انڈیا طیارے کے دونوں انجنوں کا فیل ہونا تکنیکی نگرانی میں سنگین غفلت کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی طرح حادثے کے حقائق قوم کے سامنے نہ لانا ظاہر کرتا ہے کہ بھارتی ایوی ایشن کی غفلت و نااہلی کو چھپانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ قارئین کو یاد ہو تو ابتدائی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ طیارے کے دونوں فیول کنٹرول سوئچز طیارے کے ٹیک آف کرتے ہیں "رن” سے "کٹ آف” پوزیشن پر چلے گئے تھے جس سے اڑان بھرنے والے طیارے کو درکار طاقت نہیں ملی اور جہاز کریش ہوگیا۔
یہاں یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کے پسماندگان کو معاوضوں کی ادائیگی تاحال نہیں ہوئی۔ ایک طرف پسماندگان غم سے نڈھال ہیں، ان کے پیارے دنیا میں نہیں رہے اور دوسری طرف انڈین بیوروکریسی متاثرین کی ادائیگیوں میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔
اس حوالے سے متاثرہ خاندانوں کے امریکی وکیل مائیک اینڈریوز نے انڈین ائیر لائن کے بگڑتے ہوئے کلچر اور انتظامی کمزوریوں کو اقوام عالم کے سامنے پیش کیا ہے جس سے بھارت کو عالمی سطح پر رسوائی کا سامنا ہے۔ طیارہ حادثے کے متاثرین کو عدم ادائیگیوں پر غم زدہ خاندانوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے حادثے میں جاں بحق ہونے والے ایک نوجوان کی معمر والدہ بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ اس کا بیٹا خاندان کا واحد کفیل تھا اور یہ بوڑھی خاتون اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لئے اپنے بیٹے پر انحصار کرتی تھیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت اس لاچار معمر خاتون کو ابھی تک معاوضہ ادا نہیں کر سکا۔ غم سے نڈھال یہ خاتون اپنی ادویات کی خریداری کے لئے ہاتھ پھیلائے پر مجبور ہے۔
آج بدقسمتی سے بھارت کے طیاروں کا گرنا اور خراب ہونا معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ جب ائیر انڈیا کا کوئی جہاز کریش ہو جاتا ہے تو انڈین پائلٹ اچانک بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس طیارے کے کریش کے بعد 112 پائلٹ اچانک بیمار پائے گئے جسے بھارتی حکومت کی جانب سے معمولی اضافہ قرار دیا گیا۔ اس سے بھارتی حکومت اور اس کی قیادت کی سوچ و فکر اور ترجیحات کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے 29 جولائی 2025 کی ریگولیئیرز کی آڈٹ رپورٹ حصوصی اہمیت کی حامل ہے جس میں ائیر انڈیا کی 51 حفاظتی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں غیر مجاز سمیولیٹرز اور فلائٹس کے لئے چیف پائلٹ کی غیر موجودگی نمایاں ہے۔
یہاں یہ بات بھی حیران کن اور کسی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ائیر انڈیا کے آپریشنل نقائص لاتعداد ہیں اور انڈین شہریوں سمیت ائیر انڈیا میں سفر کرنے والے تمام مسافروں کی جان و مال محفوظ نہیں۔
قارئین کرام رواں ماہ کی 3 اگست کو سنگاپور میں اے آئی 349 پرواز کو مسافروں کے سوار ہونے سے قبل ہی گراؤنڈ کردیا گیا۔ یہ انڈین ائیر لائن کی واحد پیشگی حفاظتی کارروائی تھی۔ تکنیکی خرابیاں ائیر انڈیا کی پہچان بن چکی ہیں کیونکہ اسی دن 3 اگست کو اے آئی 500 فلائٹ بھونیشور سے دہلی جاتے ہوئے اڑان سے پہلے گرمی کے باعث خطرناک صورتحال سے دوچار ہوئی۔ جہاز کو گراؤنڈ کرکے مسافروں کو اتارا گیا۔
رواں ماہ کی 4 اگست کو سان فرانسیسکو سے ممبئی جانے والی پرواز اے آئی 180 میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب مسافروں نے کیبن میں ٹڈی دل کے ساتھ ائیر انڈیا کے بدترین حالات کا سامنا کیا۔ اگرچہ ائیر انڈیا کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے کہ کیبن کی کولکتہ میں گہری صفائی کی گئی تھی لیکن ائیرپورٹ کا موقف تھا کہ وہاں تو ائیر انڈیا کا کوئی اسٹاپ ہی نہیں ہوا۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔
View all posts