پاکستان اور آذربائیجان کے تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ، باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی رہے ہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف سیاسی سطح پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے آئے ہیں بلکہ اقتصادی اور تجارتی میدان میں بھی تعاون کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھاتے رہے ہیں۔ اسی تسلسل میں حالیہ پیش رفت کے طور پر دونوں ممالک نے ایک مشترکہ تجارتی کمپنی کے قیام پر اتفاق کیا ہے جو دوطرفہ اقتصادی روابط کو نئی جہت فراہم کرے گی۔ اس اعلان نے دونوں ممالک کے کاروباری حلقوں اور پالیسی سازوں میں مثبت امیدیں پیدا کر دی ہیں۔
عالمی معیشت میں بدلتے رجحانات اور خطے میں بڑھتی ہوئی تجارتی مسابقت کے پیش نظر پاکستان اور آذربائیجان دونوں ہی اپنی اقتصادی شراکت داری کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔ آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف نے اس موقع پر کہا کہ نجی شعبے کا فعال کردار اور فضائی روابط میں بہتری باہمی تجارت کے فروغ کے لیے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔
ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت محدود دائرے میں رہی ہے جس کی بڑی وجہ لاجسٹکس کی کمی، براہ راست فضائی روابط کا فقدان اور ایک دوسرے کی مارکیٹ سے کم واقفیت رہی۔ تاہم موجودہ معاہدہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔
اس مشترکہ تجارتی کمپنی کے ذریعے دونوں ممالک توانائی، زراعت، سیاحت اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیں گے۔
توانائی: آذربائیجان تیل اور گیس کے شعبے میں مہارت رکھتا ہے جبکہ پاکستان توانائی کی درآمدات میں متنوع ذرائع تلاش کر رہا ہے۔
زراعت: پاکستانی پھل، سبزیاں، چاول اور دیگر زرعی مصنوعات آذربائیجان کی مارکیٹ میں بڑی کھپت حاصل کر سکتے ہیں۔
معاہدے کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک فضائی اور لاجسٹکس روابط کا بہتر بنانا ہے۔ براہ راست پروازیں نہ صرف وقت اور لاگت بچاتی ہیں بلکہ کاروباری وفود، نمائشوں میں شرکت اور فوری تجارتی فیصلوں کو ممکن بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کراچی سے باکو تک براہ راست پرواز شروع ہو جائے تو یہ کاروباری سامان کی ترسیل کا وقت آدھا کر سکتی ہے۔ اس سے اشیاء کی ترسیل میں تاخیر کم ہوگی، لاگت کم پڑے گی اور جلد خراب ہونے والی مصنوعات جیسے سبزیاں اور پھل اپنی تازگی کے ساتھ منزل تک پہنچ سکیں گے۔
اسی طرح جدید گوداموں اور کولڈ اسٹوریج سہولیات کا قیام دونوں ممالک کے درمیان اشیاء کے معیار کو برقرار رکھنے میں مددگار ہوگا۔
آذربائیجان کی جغرافیائی پوزیشن وسطی ایشیا اور یورپ کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتی ہے جو پاکستان کو اپنی برآمدات نئی منڈیوں تک پہنچانے میں سہولت فراہم کرے گی۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کے پاس اعلیٰ معیار کی زرعی اور صنعتی مصنوعات ہیں، لیکن مناسب مارکیٹ تک رسائی کی کمی اس کی برآمدات کے امکانات کو محدود کرتی ہے۔ آذربائیجان ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے جہاں درمیانے طبقے کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مارکیٹ پاکستانی برآمدات جیسے باسمتی چاول، آم، کھجور، ٹیکسٹائل اور لیدر مصنوعات کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔
مثال کے طور پر پاکستانی آم پہلے ہی خلیجی ممالک میں اپنی منفرد خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے مقبول ہیں۔ اگر ان کی برآمدات آذربائیجان تک بڑھائی جائیں تو یہ مارکیٹ میں ایک نئی پہچان بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی کپاس سے تیار کردہ کپڑے آذربائیجان کے فیشن اور ملبوسات کی صنعت میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔
اس مشترکہ کمپنی کے قیام سے سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھلیں گے۔ دونوں ممالک کے کاروباری حضرات مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ لگا سکیں گے، جس سے نہ صرف معیشت کو تقویت ملے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے یہ معاہدہ ایک بڑی سہولت ہوگا کیونکہ یہ انہیں کم لاگت پر غیر ملکی مارکیٹ تک رسائی فراہم کرے گا۔
پاکستان اور آذربائیجان کے تعلقات صرف تجارتی نہیں بلکہ سفارتی میدان میں بھی اہم ہیں۔ آذربائیجان نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ہے جبکہ پاکستان نے نگورنو کاراباخ کے مسئلے پر آذربائیجان کے مؤقف کی تائید کی۔ یہ معاہدہ نہ صرف اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرے گا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اعتماد کو بھی مزید مستحکم بنائے گا۔
اگر یہ معاہدہ کامیابی سے نافذ ہو جائے تو اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کو وسطی ایشیا اور یورپ کی منڈیوں تک آسان رسائی ملے گی جبکہ آذربائیجان کو جنوبی ایشیا کی بڑی اور متنوع مارکیٹ تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔ مزید یہ کہ توانائی کے شعبے میں مشترکہ منصوبے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ آذربائیجان کے لیے برآمدات کے نئے راستے کھلیں گے۔
پاکستان اور آذربائیجان کا مشترکہ تجارتی کمپنی کے قیام پر اتفاق محض ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک ایسا پل ہے جو دونوں ممالک کو ترقی، خوشحالی اور عالمی منڈی میں مؤثر موجودگی کی جانب لے جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف تجارتی حجم میں اضافہ ہوگا بلکہ ثقافتی اور عوامی سطح پر بھی تعلقات مضبوط ہوں گے۔ اگر دونوں ممالک اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں تو آنے والے برسوں میں یہ شراکت داری خطے کے لیے بہترین مثال بن سکتی ہے۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003