Nigah

پاکستان بائیکرز کی جنت

پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں قدرت نے ہر رنگ، ہر موسم اور ہر منظر کو اس انداز میں سمویا ہے کہ ہر لمحہ ایک نئی تصویر بن کر آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بننے والے ان مناظر میں سب سے زیادہ دل لبھانے والے پاکستان کے شمالی علاقہ جات ہیں۔ گلگت، بلتستان، سوات، ہنزہ، خنجراب، ناران، کاغان، چترال اور استور جیسے علاقے نہ صرف بلندی، وسعت اور خوبصورتی کا امتزاج ہیں بلکہ اب ان علاقوں نے ایک اور شناخت بھی حاصل کر لی ہے۔

حال ہی میں عمان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی بائیکرز کے ایک گروپ نے پاکستان کا دورہ کیا اور یہاں کی حسین وادیوں، بل کھاتی سڑکوں، برفیلی چوٹیوں، نیلگوں جھیلوں اور مہمان نواز لوگوں سے متاثر ہو کر اس سرزمین کو "بائیکرز کی جنت” قرار دیا۔ ان کا یہ سفر نہ صرف ایک سیاحتی مہم تھی بلکہ پاکستان کے مثبت تشخص اور پاک عمان دوستی کی نئی جہتوں کا عکاس بھی ثابت ہوئی۔

عمان سے تعلق رکھنے والے آٹھ رکنی بائیکرز کے گروپ نے اسلام آباد سے اپنی بائیکنگ مہم کا آغاز کیا۔ ان کے لیے یہ صرف ایک تفریحی سفر نہیں بلکہ ایک مشن تھا پاکستان کے بارے میں دنیا کے سامنے وہ پہلو اجاگر کرنا جو اکثر بین الاقوامی میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ یہ گروپ اپنے ہمراہ جدید آلات، کیمرے اور سوشل میڈیا ٹیم بھی لایا تاکہ ہر منظر اور تجربے کو فوری طور پر دنیا بھر میں شیئر کیا جا سکے۔

شمالی پاکستان کا حسن دنیا میں سامنے لانے کے لئے گروپ اسلام آباد سے ایبٹ آباد، ناران، بابو سر ٹاپ، چلاس، گلگت، ہنزہ، خنجراب ٹاپ، استور اور دیوسائی جیسے علاقوں سے ہوتا ہوا واپس لوٹا۔ دورانِ سفر انہوں نے جو کچھ دیکھا، وہ ان کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک گھومنے کے بعد بھی پاکستان جیسی قدرتی سحر، مقامی مہمان نوازی اور روایتی ثقافت کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملی۔

ان بائیکرز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ہائی ویز، خاص طور پر قراقرم ہائی وے، جتنی پُر خطر ہے، اتنی ہی دلفریب بھی ہے۔ ایک طرف گہرے دریا، دوسری طرف آسمان کو چھوتی برف سے ڈھکی پہاڑیاں، بل کھاتی سڑکیں، یہ تمام مناظر کسی بھی بائیکر کے لیے کسی خواب سے کم نہیں۔ یہاں کی سڑکیں صرف راستے نہیں بلکہ مہم جوئی، فطرت اور رومان کا امتزاج ہیں۔

جس چیز نے ان بائیکرز کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ پاکستانی عوام کا مہمان نواز رویہ تھا۔ ہر جگہ لوگوں نے نہ صرف ان کا خیر مقدم کیا بلکہ ان کے ساتھ تصویریں بنائیں، کھانے کی دعوت دی اور مفت رہائش کی پیشکش کی۔ مقامی پولیس اور سکیورٹی اداروں نے بھی ہر مقام پر مکمل تعاون فراہم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بارے میں جو منفی تاثر عالمی سطح پر پایا جاتا ہے، یہ تجربہ اس کی مکمل نفی کرتا ہے۔

سکیورٹی اور اعتماد ایک بڑا سوال جو اکثر بین الاقوامی سیاحوں کے ذہن میں ہوتا ہے وہ سکیورٹی کا ہے مگر ان بائیکرز نے واضح کیا کہ انہیں دورانِ سفر کسی بھی مقام پر کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر جگہ خود کو محفوظ پایا، مقامی لوگ ہمیں دیکھ کر اتنے خوش ہوتے تھے جیسے ہم کسی قبیلے کے گمشدہ فرد ہوں جو واپس آ گیا ہو۔

یہ سفر صرف ایک بائیکنگ ٹور نہیں تھا بلکہ پاکستان کی سیاحت کا ایک نیا باب ہے۔ اس گروپ نے سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں تک اپنی تصاویر اور ویڈیوز پہنچا کر پاکستان کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے ملک واپس جا کر مزید بائیکرز اور سیاحوں کو پاکستان آنے کی ترغیب دیں گے۔

یہ سفر سفارتی سطح پر بھی ایک خوش آئند اشارہ ہے۔ عمان اور پاکستان کے درمیان برادرانہ تعلقات میں اس طرح کے عوامی رابطے ایک مثبت اضافہ ہیں۔ بائیکرز کے ذریعے دونوں ممالک کے نوجوان ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں، جو مستقبل میں تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔

اس کامیاب بائیکنگ ٹور میں حکومتِ پاکستان خاص طور پر وزارت سیاحت، گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔

سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی کا رجحان باقاعدہ پالیسی کا حصہ بنایاجائے تو پاکستان جلد ہی دنیا کے بہترین بائیکنگ اور ایڈونچر ٹورازم مقامات میں شامل ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں ایڈونچر ٹورازم کو سنجیدگی سے لیا جائے اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے تو یہ صنعت سالانہ اربوں روپے کما سکتی ہے۔ خاص طور پر بائیکنگ، ہائیکنگ، کیمپنگ، راک کلائمبنگ اور جیپ سفاری جیسے شعبوں میں بے پناہ امکانات موجود ہیں۔

پاکستان کی خوبصورتی اپنی جگہ، لیکن اگر اس کو پیشہ ورانہ انداز میں عالمی سطح پر متعارف کرایا جائے تو یہ سیاحت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہے۔ عمان سے آئے بائیکرز نے جو تاثر اپنے ملک لے کر گئے، وہ پاکستان کے لیے کسی سرمائے سے کم نہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، میڈیا اور نجی شعبہ اس رجحان کو پائیدار اور مؤثر بنائیں، تاکہ پاکستان کا یہ چہرہ دنیا بھر میں اُجاگر ہو سکے۔


اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد سلیم

    محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔