Nigah

پاکستان روس مال بردار راہداری ایک نیا جغرافیائی و معاشی دور

pak russia 1 nigah

پاکستان اور روس کے درمیان تجارت اور علاقائی رابطے کو فروغ دینے کی جو کوششیں حالیہ برسوں میں دیکھنے کو ملی ہیں، ان کا سب سے واضح مظہر پاکستان روس مال بردار راہداری کا منصوبہ ہے۔ بظاہر یہ ایک تجارتی راہداری کا منصوبہ لگتا ہے، لیکن اس کے اندر کئی اہم جہتیں چھپی ہوئی ہیں جن میں معاشی خودمختاری، جغرافیائی حکمت عملی، توانائی کی رسائی اور خطے میں طاقتوں کا نیا توازن شامل ہے۔

پاکستان طویل عرصے سے توانائی کے بحران، تجارتی عدم توازن اور محدود برآمدی راستوں کا شکار رہا ہے۔ دوسری جانب روس جو دنیا کا بڑا توانائی پیدا کرنے والا ملک ہے، مغربی پابندیوں کے بعد ایشیائی منڈیوں کی جانب بڑھنے پر مجبور ہوا۔ ایسے وقت میں پاکستان اور روس کے درمیان براہِ راست تجارتی روابط کا قیام

نہ صرف دونوں ممالک کے لیے نفع بخش ثابت ہو سکتا ہے بلکہ پورے خطے میں نیا تزویراتی منظرنامہ بھی پیش کرتا ہے۔

2023 کے آخر میں روس سے مال بردار ٹرک قافلے کے طور پر نکلے اور مختلف وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہوتے ہوئے بلوچستان میں داخل ہوئے۔ یہ ایک علامتی اور عملی قدم تھا، جس نے دونوں ممالک کے درمیان زمینی راہداری کو حقیقت کا رنگ دیا۔ روسی سامان جن میں صنعتی پرزہ جات، کیمیکل اور دیگر تجارتی اشیاء شامل تھیں، گوادر، کوئٹہ اور لاہور جیسے اہم مراکز تک پہنچائی گئیں۔

pak russia 2 observer guardian

یہ مال بردار راہداری محض پاکستان اور روس تک محدود نہیں بلکہ اس کے درمیان واقع ریاستیں جیسے قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان بھی اس کا لازمی حصہ ہیں۔ ان ریاستوں کے ذریعے یہ راہداری ایک تجارتی نیٹ ورک میں بدل رہی ہے، جہاں نہ صرف سامان کی ترسیل ہو رہی ہے بلکہ علاقائی سیاست، ثقافت اور سرمایہ کاری کا تبادلہ بھی فروغ پا رہا ہے۔

اگرچہ یہ منصوبہ بظاہر پاکستان اور روس کے درمیان ہے لیکن اس کے ڈھانچے اور جغرافیائی ترتیب میں چین کی دلچسپی بھی صاف محسوس ہوتی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ساتھ اگر یہ مال بردار راہداری جڑ جائے تو گوادر ایک عالمی تجارتی بندرگاہ بن سکتا ہے۔ یوں چین کو بھی مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک تیز رسائی حاصل ہوگی اور پاکستان، وسطی ایشیا اور روس کے لیے گیٹ وے بن جائے گا۔

اس منصوبے کے تحت پاکستان کو روسی توانائی وسائل جیسے کہ گیس، پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلہ نسبتاً سستے داموں مل سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف پاکستان کے درآمدی اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ صنعتوں کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس کے برعکس، پاکستان کی زراعت، ٹیکسٹائل، ادویات اور آئی ٹی مصنوعات روسی منڈیوں میں نئی جگہ حاصل کر سکتی ہیں۔

مال بردار راہداری کا آغاز پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ امریکہ اور مغربی طاقتوں پر انحصار میں کمی اور خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں وسعت کی کوشش ہے۔

روس جو ماضی میں پاکستان کا اتحادی نہیں رہا اب ایک اہم شراکت دار بن کر ابھر رہا ہے۔

اگرچہ امکانات روشن ہیں مگر سیکیورٹی چیلنجز بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ افغانستان کی صورتحال، وسطی ایشیا کی داخلی سیاست اور دہشت گردی کے خطرات اس راہداری کی مستقل فعالیت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ تاہم پاکستان اور روس دونوں ہی ان خدشات سے آگاہ ہیں اور ان کے سدباب کے لیے باہمی انٹیلی جنس شیئرنگ اور فوجی تعاون پر بھی بات چیت جاری ہے۔

pak russia 3 nigah pk

پاکستان میں تجارتی حلقوں اور عوامی رائے عامہ نے اس پیش رفت کا مثبت انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔ کاروباری افراد اسے نئے مواقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ نوجوانوں کے لیے روزگار، تربیت اور نئی مہارتوں کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ روس میں بھی اس راہداری کو متبادل ایشیائی راستہ قرار دیا جا رہا ہے، جو یورپی پابندیوں کے بعد ضروری پیش قدمی ہے۔

یہ منصوبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن مستقبل قریب میں اس کی توسیع متوقع ہے۔ پاکستان کے راستے ایران، ترکی اور یورپ تک زمینی رابطہ بھی ممکن ہے۔ اسی طرح، روس کے راستے منگولیا، چین اور مشرقی بعید تک رسائی آسان ہو جائے گی۔ یہ مال بردار راہداری طویل مدت میں نارتھ ساوتھ ٹریڈ کوریڈور کی عملی شاخ بن سکتی ہے۔

پاکستان روس مال بردار راہداری محض ایک تجارتی راستہ نہیں بلکہ نئی خارجہ حکمت عملی، علاقائی تعاون اور اقتصادی خودانحصاری کا مظہر ہے۔ اگر اسے درست انداز میں آگے بڑھایا گیا تو یہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کو سہارا دے گا بلکہ اسے عالمی سفارت کاری میں ایک باوقار مقام بھی دلا سکتا ہے۔

اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • Prof. Dr. Ghulam Mujaddid

    ڈاکٹر مجدد نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ تین ماسٹرز ڈگریوں اور اسٹریٹجک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کے حامل ہیں۔ وہ پاکستان ایئر فورس میں ۳۳ سال خدمات انجام دینے والے سابق کمیشنڈ آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔