میڈیا کو جمہوریت کا ستون کہا جاتا ہے مگر جب یہ ستون تعصب، سیاسی مقاصد یا مخصوص ریاستی بیانیے کا آلۂ کار بن جائے تو نہ صرف سچائی مسخ ہوتی ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی دھچکا پہنچتا ہے۔ حالیہ دنوں میں معروف بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایسی ہی ایک مثال پیش کی۔ جہاں صحافتی دیانتداری اور ادارتی غیر جانبداری کو نظرانداز کر کے ایک مسخ شدہ اور گمراہ کن سرخی شائع کی گئی۔
رائٹرز نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ امریکہ نے کشمیر میں سرگرم ایک مزاحمتی گروپ دی ریزسٹنس فرنٹ (TRF) کو ایک پاکستانی گروپ کی شاخ قرار دے کر اس پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ حالانکہ امریکی حکومت یا اس کے کسی سرکاری ادارے نے ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود، رائٹرز نے اپنی سرخی اور ابتدائی پیراگراف میں TRF کو براہ راست پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی جو نہ صرف غلط معلومات پر مبنی ہے بلکہ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی جانب سے غیر پیشہ ورانہ اور متعصبانہ طرزِ عمل کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
رپورٹ میں جس انداز سے دی ریزسٹنس فرنٹ کو پاکستانی گروپ کے طور پر پیش کیا گیا وہ نہ صرف صحافتی اصولوں کے منافی ہے بلکہ اس میں واضح طور پر بھارتی ریاستی بیانیے کو آگے بڑھایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اصل پریس ریلیز میں TRF کو کہیں بھی پاکستانی شاخ قرار نہیں دیا گیا۔ اس بات کی تصدیق متعدد آزاد ذرائع سے بھی ہوئی ہے۔
ایک مقامی کشمیری مزاحم گروپ ہے، جو 2019 میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد ابھرا۔ اس تنظیم کا قیام بھارت کے جابرانہ اقدامات کے خلاف فطری ردعمل کے طور پر سامنے آیا۔ تاہم بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کو دہشت گردی کا نام دے کر عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی پروپیگنڈا کو بلا تحقیق آگے بڑھایا ہو۔ مغربی میڈیا اداروں میں بھارتی صحافیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور ان کے ذریعے مخصوص نظریاتی بیانیے کو فروغ دینا خطرناک رجحان بن چکا ہے۔
رائٹرز جیسے معتبر ادارے سے ایسی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی توقع نہیں کی جاتی۔ یہ نہ صرف اس ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ عالمی صحافت پر عوام کے اعتماد کو بھی کمزور کرتا ہے۔ جب عالمی سطح پر مانے جانے والے ادارے بغیر تصدیق کے متعصب مواد شائع کریں تو یہ صحافتی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔
بھارت نے ایک طویل عرصے سے کشمیری مزاحمتی تحریکوں کو پاکستان کی ایماء پر چلنے والی دہشت گرد تنظیمیں قرار دینے کی مہم چلا رکھی ہے۔ وہ ہر مزاحمتی سرگرمی کو بیرونی مداخلت کا رنگ دے کر اپنی داخلی ناکامیوں سے نظریں چراتا ہے۔ اب اس پروپیگنڈا کو بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ذریعے پھیلانا نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس سے نہ صرف سچائی چھپائی جاتی ہے بلکہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو بھی جواز فراہم کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں واضح طور پر کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہیں۔ لیکن جب بین الاقوامی میڈیا کشمیر میں سرگرم گروہوں کو بیرونی مداخلت کا نتیجہ قرار دے تو وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پسِ پشت ڈالنے میں معاون بن جاتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف قانونی و سیاسی اصولوں کی پامالی ہے بلکہ انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کی دوہری پالیسی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی سینٹکام کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کو انسداد دہشت گردی میں غیر معمولی شراکت دار قرار دیا ہے۔ یہ بیان واضح طور پر پاکستان کے اس کردار کو تسلیم کرتا ہے جو اس نے داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف عالمی جنگ میں ادا کیا۔ ایسی صورت میں، رائٹرز کی رپورٹ میں پاکستان کو TRF سے جوڑنے کی کوشش ناقابلِ فہم اور بدنیتی پر مبنی ہے۔
صحافت کا اولین فریضہ سچائی کی تلاش اور غیر جانبدار رپورٹنگ ہے۔ رائٹرز کی یہ رپورٹ صحافت کے انہی اصولوں کے خلاف ہے۔ جب کسی خبر رساں ادارے کی رپورٹنگ تعصب اور مفروضوں پر مبنی ہو تو یہ صرف خبر نہیں بلکہ جھوٹ کا باقاعدہ پھیلاؤ بن جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے امن اور استحکام کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
بین الاقوامی برادری کو اب یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ نامور ادارے بھی پروپیگنڈا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ خودمختار ادارے رائٹرز جیسے اداروں کی رپورٹنگ کا تجزیہ کریں اور ایڈیٹوریل احتساب کو یقینی بنائیں۔ صرف اسی صورت میں بین الاقوامی صحافت اپنی غیر جانبداری اور ساکھ بحال کر سکتی ہے۔
رائٹرز کی اس رپورٹ نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ پروفیشنل ازم کے دعوے اور زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہو سکتا ہے۔ جب خبر رساں ادارے مخصوص ریاستی بیانیے کے آلۂ کار بن جائیں تو پھر سچائی صرف ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ عالمی صحافت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقائق کی بنیاد پر خبریں دے نہ کہ کسی ریاستی ایجنڈے کی پیروی کرے۔
پاکستان کو ایسے جھوٹے بیانیوں سے نقصان پہنچانا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس کی انسداد دہشت گردی میں عملی شراکت، قربانیاں اور بین الاقوامی اعتراف سب کے سامنے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے تاکہ سچائی دب نہ جائے اور صحافت ایک بار پھر عزت و اعتماد کی علامت بن سکے۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔
View all posts