Nigah

پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی نئی حکمت عملی, وفاقی کانسٹیبلری کا کردار

دہشت گردی nigah pk

پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں داخلی سیکیورٹی کے چیلنجز مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی، عسکریت پسندی اور بین الصوبائی جرائم کی پیچیدہ صورتحال نے ریاستی اداروں کے لیے مؤثر اور متحد حکمت عملی اپنانا ناگزیر بنا دیا ہے۔ انہی حالات کے پیش نظر حکومتِ پاکستان نے فرنٹیئر کانسٹیبلری (FC) کو مکمل وفاقی حیثیت دینے اور اُسے ایک باقاعدہ وفاقی کانسٹیبلری میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ قدم صرف ایک ادارہ جاتی اصلاح نہیں بلکہ پاکستان کے داخلی تحفظ کے پورے تصور کو دوبارہ تشکیل دینے کی کوشش ہے۔

پاکستان کو گزشتہ چند برسوں سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملوں میں اضافے نے ریاستی اداروں کو چوکنا کر دیا ہے۔ نومبر 2022 میں ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کے خاتمے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان، باجوڑ، خیبر اور کوہاٹ جیسے علاقوں میں سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے صرف صوبائی پولیس یا نیم فوجی دستوں پر انحصار کافی نہیں رہا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ایک ایسی فورس تشکیل دی جائے جو پورے ملک میں یکساں صلاحیت، تربیت اور اختیارات کے ساتھ کام کرے۔ چنانچہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو وفاقی سطح پر منظم کرنے کا فیصلہ اسی تناظر میں سامنے آیا ہے۔

نئی وفاقی کانسٹیبلری کو ملک بھر میں کام کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ بشمول اسلام آباد، چاروں صوبے، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان۔ اس کے دائرہ اختیار کو صرف سرحدی علاقوں تک محدود رکھنے کے بجائے شہری و دیہی علاقوں میں بھی پھیلایا جائے گا۔ اس طرح یہ فورس ایک ملک گیر ادارہ بن کر ابھرے گی جو تمام داخلی خطرات کا مؤثر طور پر سامنا کر سکے گی۔

وفاقی حکومت اس فورس کو مکمل مالی، انتظامی اور اسٹریٹجک معاونت فراہم کرے گی۔ اس کے دفاتر اور آپریشنل مراکز پورے ملک میں قائم کیے جائیں گے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل دیا جا سکے۔

اس اقدام کو قانونی حیثیت دینے کے لیے 1915 کے فرنٹیئر کانسٹیبلری ایکٹ میں ترامیم کی جائیں گی۔ یہ ترامیم وفاقی پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کی جائیں گی یا ابتدائی طور پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کی جا سکتی ہیں۔ ان ترامیم کے ذریعے وفاقی کانسٹیبلری کو ملک بھر میں کام کرنے کا قانونی اختیار، گرفتاری کے اختیارات، تفتیش کی مجاز حیثیت اور دیگر نفاذی حقوق حاصل ہوں گے۔

اس نئی فورس کی کمان پولیس سروس آف پاکستان (PSP) کے اعلیٰ تربیت یافتہ افسران کے سپرد کی جائے گی۔ اس کا مقصد اس فورس کو پیشہ ورانہ معیار کے مطابق چلانا ہے تاکہ یہ نہ صرف سیکیورٹی چیلنجز کا مؤثر جواب دے سکے بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا احترام بھی یقینی بنائے۔

فورس میں بھرتی ملک بھر سے کی جائے گی، تاکہ قومی ہم آہنگی اور نمائندگی کو فروغ دیا جا سکے۔ تربیتی پروگرام جدید خطوط پر مبنی ہوں گے۔ جن میں انسداد دہشت گردی، انٹیلی جنس، شہری سلامتی، سائبر سیکیورٹی اور ہنگامی ردعمل شامل ہوں گے۔

ماضی میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کا دائرہ کار زیادہ تر خیبرپختونخوا کے قبائلی یا سرحدی علاقوں تک محدود رہا۔ یہ ایک نیم فوجی فورس تھی جو پولیس اور فوج کے درمیان رابطہ کاری کے طور پر کام کرتی تھی۔ تاہم وقت کے ساتھ ملک کو جس نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے، وہ صرف سرحدی نہیں بلکہ اندرونی نوعیت کے ہو چکے ہیں۔

لہٰذا ایف سی کا کردار صرف سرحدی نگرانی تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اب اسے داخلی امن و امان، حساس تنصیبات کی حفاظت، مظاہروں اور ہنگاموں میں کنٹرول اور دہشت گردی کے خلاف آپریشنز جیسے فرائض بھی سرانجام دینا ہوں گے۔

پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال پر افغانستان کی داخلی پالیسیوں اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کا گہرا اثر ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق، افغان سرزمین پر موجود شدت پسندوں کو آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت حاصل ہے جس کے باعث سرحد پار سے حملے معمول بن چکے ہیں۔ ایسے میں ایک مضبوط، منظم اور متحرک فورس کی ضرورت ہے جو نہ صرف زمینی خطرات کا مقابلہ کرے بلکہ خفیہ معلومات کے تبادلے، انٹیلی جنس شیئرنگ اور فوری ردعمل میں بھی کردار ادا کر سکے۔

مزید برآں اس فورس کو بلوچستان، سندھ کے دیہی علاقوں اور جنوبی پنجاب جیسے خطوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسند تحریکوں سے نمٹنے کے لیے بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ وفاقی کانسٹیبلری کو اقلیتوں کے تحفظ، مذہبی مقامات کی سیکیورٹی اور سی پیک جیسے حساس منصوبوں کی حفاظت میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین کا ماننا ہے کہ وفاقی کانسٹیبلری کا قیام ایک اسٹریٹجک اور وقت کی ضرورت کے مطابق فیصلہ ہے۔ اس سے نہ صرف صوبائی فورسز کو سپورٹ ملے گی بلکہ بین الصوبائی ہم آہنگی، معلومات یکجا کرنے اور فوری ردعمل کے عمل میں بہتری آئے گی۔

ماہرین کے مطابق اس فورس کو سول حکومت کے زیرِ نگرانی رکھا جائے تاکہ یہ جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے۔ اگر اس فورس کا استعمال سیاسی مقاصد یا مخالفین کی سرکوبی کے لیے کیا گیا تو یہ ریاستی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

وفاقی فورس کا قیام بظاہر مرکزیت کا مظہر ہے تاہم اس پر صوبائی تحفظات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں پہلے ہی مرکز کی سکیورٹی پالیسیوں پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ وفاقی حکومت کو اس منصوبے پر مکمل اعتماد سازی، مشاورت اور شفاف پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ یہ اقدام صوبائی خودمختاری کو متاثر نہ کرے بلکہ اس کی معاونت کرے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ وفاقی کانسٹیبلری کی تعیناتی صوبائی حکومتوں کی مشاورت اور اجازت سے ہو تاکہ آئینی اختیارات کا تصادم نہ ہو۔

وفاقی کانسٹیبلری کا قیام پاکستان کے داخلی سکیورٹی نظام میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہے۔ یہ محض ادارہ جاتی اصلاح نہیں، بلکہ قومی سلامتی کے وژن کا مظہر ہے جو دہشت گردی، انتہا پسندی اور جرائم کے خلاف ایک متحد، ہم آہنگ اور منظم ردعمل کی بنیاد رکھتا ہے۔

اگر اس فورس کو سیاسی مداخلت سے پاک رکھا گیا، اس کی تربیت عالمی معیار کے مطابق ہوئی اور اس پر پارلیمانی نگرانی کو یقینی بنایا گیا تو یہ ادارہ پاکستان میں امن و امان کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔