ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان اور ایران کے مفادات اور ترجیحات تقریباً یکساں ہیں۔ دونوں کے برادرانہ تعلقات خطے میں امن، ترقی، تجارت اور معاشی استحکام کی ضمانت ہیں اور گہرے سمندروں سے دور ممالک خصوصاً سنٹرل ایشیا کے ملکوں کی تجارت کے لئے کوریڈور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان نے کھل کر ایران کی حمایت کی اور اسرائیل کے توسیح پسندانہ عزائم کی عالمی فورم پر دو ٹوک انداز میں مذمت کی۔
پاکستان کے اس واضح موقف کے پیش نظر اسرائیل سے جنگ بندی کے فوری بعد ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے پہلی فرصت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ انہوں نے حکومت اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مضبوط اور گہرے ہو گئے ہیں۔
دورے کے دوران پاکستان اور ایران نے دوطرفہ 12 مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط کیے جو تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت، زراعت، عدالتی تعاون اور سرحدی بنیادی ڈھانچے کا احاطہ کرتی ہیں۔ سب سے اہم ایران اور پاکستان کا گوادر اور چاہ بہار کے قریب ریم دان گبد سرحد پر مشترکہ فری اکنامک زون کے قیام کا تاریخی معاہدہ ہے۔ ریم دان گبد گوادر سے 70 کلومیٹر دور ہے جو چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا ایک اہم مرکز ہونے کے ساتھ مکران کوسٹل بیلٹ کو سرحد پار تجارت کا متحرک سنٹرل پوائنٹ ثابت ہوگا۔
جس سے دونوں ممالک کے درمیان معاشی، ثقافتی، اسٹریٹجک اور سفارتی تعلقات کو نہ صرف مزید وسعت ملے گی بلکہ فری اکنامک زون سے علاقائی رابطے بہتر اور سرحدی تجارت کے فروغ میں مدد ملے گی۔ یہ زون ایک طرح سے جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کو تجارتی لحاظ سے مضبوط بنانے کا ویژن ہے۔ جلد ہی ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد منصوبے کے عملی پہلوؤں کا جائزہ لینے ریم دان گبد کا دورہ کرے گا۔ اس اقتصادی زون میں ٹیکس مراعات، کسٹمز تعاون، اور سرمایہ کار دوست قوانین لاگو کیے جائیں گے تاکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ ملے۔ اس زون سے لاجسٹکس، مینوفیکچرنگ، اور زراعت میں بڑی سرمایہ کاری متوقع ہے جس سے مقامی روزگار بڑھے گا۔ مکران کوسٹل ہائی وے کو گوادر اور چاہ بہار کو جوڑنے والی کلیدی تجارتی شاہراہ قرار دیا گیا ہے۔
گوادر چاہ بہار رابطہ مغربی، وسطی اور جنوبی ایشیا کے لیے ایک متحد اقتصادی پُل کے طور پر ابھرے گا جو خطے کے تجارتی منظرنامے کو بدل دے گا۔
سی پیک کی عالمی اہمیت میں اضافہ کے لیے اس کوریڈور کو ایران کے ذریعے روس اور یورپ تک پھیلانے پر بھی دونوں ملکوں کا اتفاق پایا گیا۔
دونوں ملکوں نے تجارتی حجم 3 ارب ڈالر سے 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب بنیادی پالیسیوں کو مربوط اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
پاکستانی اور ایرانی قیادت نے تجارتی سہولت کے لیے کثیر بار داخلے والے ویزے اور نان ٹیرف رکاوٹوں کے خاتمے کے علاوہ آئی سی ٹی، میری ٹائم سیفٹی، سیاحت، عدالتی اصلاحات اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
اسمگلنگ، دہشتگردی اور غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور قانونی تجارت کے فروغ کے لئے دونوں ممالک نے سرحدی سلامتی کو مضبوط بنانے کا عہد کیا۔
بلوچستان کو علاقائی ترقی میں شامل کر کے پاکستان نے جامع اقتصادی ترقی کے عزم کا اعادہ کیا ہے جو بلوچستان میں سرگرم مٹھی بھر بھارتی سپانسرڈ دہشتگردوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
پاکستان اور ایران کی زیر قیادت نے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا ہے جس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام کو معاشی اور اقتصادی فائدہ ہوگا بلکہ اس کے مثبت اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے مضبوط روابط جیو اکنامک حکمت عملی میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔
View all posts