پاکستان اور چین کی دوستی ہمیشہ ہر آزمائش پر پوری اتری ہے۔ یہ رشتہ نہ صرف خطے کی جغرافیائی سیاست میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ اقتصادی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اب یہ دوستی ایک نئے باب میں داخل ہو چکی ہے، جسے ’’سی پیک 2.0‘‘ یا دوسرے مرحلے کا نام دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے حالیہ دنوں میں اس نئے مرحلے کے اغراض و مقاصد کو اجاگر کرتے ہوئے اسے براہِ راست کاروباری روابط کا دور قرار دیا جو صرف حکومتوں کے درمیان نہیں بلکہ عوام، کمپنیوں اور صنعتی شعبے کی شراکت داری پر مبنی ہوگا۔
سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کا دوسرا مرحلہ محض سڑکوں یا توانائی منصوبوں تک محدود نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک ہمہ گیر منصوبہ ہے جس کا دائرہ کار صنعتی زونز، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی، ای-گورننس، ماحولیات اور سماجی انصاف جیسے اہم شعبہ جات تک پھیلا ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے واضح کیا ہے کہ سی پیک 2.0 کو پاکستان کے پانچ ترقیاتی اہداف یعنی 5Es ایکسپورٹس (برآمدات)، ای-پاکستان (ڈیجیٹل ترقی)، انرجی (توانائی)، انوائرمنٹ (ماحولیات) اور ایکویٹی (برابری اور فلاح) سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔
سی پیک 2.0 کی سب سے نمایاں خصوصیت "Business-to-Business” (B2B) تعاون ہے۔ جس کا مقصد چینی کمپنیوں اور پاکستانی کاروباری حضرات کے درمیان براہِ راست شراکت داری قائم کرنا ہے۔ یہ شراکت داری سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرے گی جس سے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور مقامی صنعتوں کو جدید ٹیکنالوجی اور تجربے کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اس عمل سے حکومت کا کردار سہولت کار کا ہوگا تاکہ نجی شعبہ خود آگے بڑھ کر معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرے۔
سی پیک کے پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور توانائی منصوبے شامل تھے جبکہ دوسرے مرحلے میں خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ رشکئی، فیصل آباد، گوادر اور دھابیجی میں SEZs قائم کیے جا رہے ہیں، جہاں چینی سرمایہ کاروں کو مراعات دی جائیں گی اور مقامی صنعتوں کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کا عمل بھی تیز ہوگا۔
زراعت کے شعبے میں بھی پاک چین تعاون نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ چینی کمپنیاں پاکستان میں جدید زرعی ٹیکنالوجی متعارف کروا رہی ہیں، جیسے ڈرپ ایریگیشن، بائیوٹیک بیج اور اسمارٹ فارمنگ۔ یہ اقدامات نہ صرف زرعی پیداوار کو بڑھائیں گے بلکہ خوراک کے تحفظ کو بھی یقینی بنائیں گے۔ یہ تعاون غذائی قلت کے خطرات سے نمٹنے میں مدد دے گا خاص طور پر جب دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نبرد آزما ہے۔
سی پیک 2.0 صرف صنعتی اور تجارتی ترقی کا منصوبہ نہیں بلکہ اس کا ایک بڑا حصہ عوامی فلاح و بہبود سے بھی جڑا ہے۔ چین کی طرف سے صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات کے منصوبوں میں تعاون جاری ہے۔ موبائل ہیلتھ یونٹس، ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز اور کم لاگت مکانات کے منصوبے اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے گا اور سماجی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔
پاک چین دوستی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے چین کے شہریوں کا تحفظ اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے واضح احکامات کی روشنی میں ملک بھر میں چینی شہریوں کے لیے اعلیٰ سیکیورٹی پروٹوکول نافذ کر دیے گئے ہیں۔ تمام ائیرپورٹس پر چینی شہریوں کو ترجیحی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اور وفاقی و صوبائی ادارے اس سلسلے میں مکمل ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کا مقصد نہ صرف چینی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال رکھنا ہے بلکہ دوستی کے رشتے کو مزید مضبوط بنانا بھی ہے۔
پاکستان اور چین نے مل کر اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ سی پیک 2.0 کو اعلیٰ معیار پر لے جایا جائے گا۔ دونوں ممالک اس امر پر متفق ہیں کہ منصوبوں میں شفافیت، پائیداری اور تکنیکی مہارت کا اعلیٰ معیار برقرار رکھا جائے گا۔ اس ضمن میں خصوصی مانیٹرنگ سیلز اور مشترکہ ٹاسک فورسز تشکیل دی گئی ہیں جو منصوبوں کی پیشرفت کا جائزہ لے رہی ہیں۔ اس نئے مرحلے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف معاشی تعاون نہیں بلکہ پائیدار ترقی، ماحولیاتی تحفظ اور انسانی ترقی کو بھی اہمیت دیتا ہے۔
سی پیک کے تناظر میں جہاں ترقی کی بات ہو رہی ہے، وہاں سلامتی اور انسانی خدمت کا پہلو بھی اجاگر ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث کئی سیاح پھنس گئے تھے۔ پاک فوج نے نہایت پیشہ ورانہ اور بروقت کارروائی کرتے ہوئے 200 سے زائد متاثرہ سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ یہ واقعہ نہ صرف افواجِ پاکستان کی فرض شناسی کا عکاس ہے بلکہ سیاحت اور بین الاقوامی دوستی کو بھی فروغ دیتا ہے۔
سی پیک 2.0 کا آغاز پاک چین دوستی کے ایک نئے باب کی نوید ہے۔ یہ شراکت داری اب محض حکومتوں کے درمیان نہیں رہی بلکہ یہ عوام، صنعت، معیشت اور سماج تک پھیل چکی ہے۔ براہِ راست کاروباری روابط، صنعتی ترقی، زراعت میں انقلاب، جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی اور چینی شہریوں کی سیکیورٹی جیسے اقدامات نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہیں بلکہ پورے خطے میں ترقی، امن اور استحکام کی ضمانت ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کا یہ بیان کہ "چینی بھائیوں کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے”، دراصل اس دوستی کی روح کی عکاسی کرتا ہے۔ مستقبل میں جب تاریخ سی پیک 2.0 کو یاد کرے گی، تو اسے دو قوموں کی مشترکہ ترقی، ایثار، اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ پاکستان اور چین کی یہ شراکت داری بلا شبہ ایک نئے دور کا آغاز ہے ۔ایک ایسا دور جو خود انحصاری، خوشحالی اور روشن مستقبل کی جانب لے جائے گا۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔
View all posts