22 اپریل 2025 کو بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک ہولناک حملہ پیش آیا۔ چند گھنٹوں میں ہی بھارتی حکومت نے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا۔ بغیر کسی ٹھوس شواہد، غیر جانبدار تفتیش یا بین الاقوامی تصدیق کے۔۔ حملے کی نوعیت اور حساسیت کے باوجود جس انداز میں بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) نے تحقیقات کیں وہ ایک منظم اور پیشہ ورانہ کوشش سے زیادہ سیاسی تھیٹر دکھائی دیتا ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف بھارتی تحقیقاتی اداروں کی جانبداری کو بے نقاب کرتا ہے، بلکہ اس حقیقت کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ کس طرح دہشت گردی جیسے حساس معاملات کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔۔
22 اپریل کی شام کو حملے کے بعد محض دو گھنٹوں میں ایف آئی آر درج کر لی گئی اور فوراً ہی سرکاری سطح پر پاکستان کا نام لے کر میڈیا میں پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے پیچھے کوئی سائنسی فارنزک تجزیہ نہیں تھا، نہ کوئی چشم دید گواہ، نہ ڈیجیٹل شواہد اور نہ کوئی عدالتی عمل۔ صرف ایک سیاسی اسکرپٹ تھا جسے فوراً نافذ کر دیا گیا۔
اس تیزی سے لیے گئے فیصلے نے بھارتی تفتیشی اداروں کی غیر جانب داری پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے۔ بین الاقوامی قانون اور تفتیشی اصولوں کے برخلاف اتنی جلد بازی میں کسی ملک کو ذمہ دار ٹھہرانا خود نیت کی خرابی کا ثبوت ہے۔
23 اپریل کو این آئی اے نے چار مبینہ حملہ آوروں کے مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائے گئے تصویری خاکے جاری کیے۔ جن میں سے تین پاکستانی اور ایک مقامی کشمیری بتایا گیا۔ ان خاکوں کو میڈیا میں بڑے شور شرابے سے پھیلایا گیا، گویا یہ کسی ہالی ووڈ فلم کے کردار ہوں۔
مگر محض تین دن بعد، 26 اپریل کو این آئی اے نے پانچ نئے ناموں کو شامل کیا اور پہلے جاری کیے گئے خاکے غلطی قرار دیے۔ اس کے بعد حملہ آوروں کی تعداد چار سے بڑھا کر دس کر دی گئی۔ اس قسم کی مبہم فہرست اور تبدیل ہوتے بیانیے اس بات کا واضح ثبوت تھے کہ یہ تحقیق نہیں بلکہ تخیلاتی ڈرامہ ہے۔
جون میں دو مقامی گجر چرواہوں پرویز احمد اور بشیر احمد کو مبینہ پاکستانی دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ان پر شدید جسمانی اور نفسیاتی دباؤ ڈالا گیا تاکہ وہ زبردستی اعترافی بیان دیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں۔ کشمیر اور بھارت کے دیگر حصوں میں بے گناہ مسلمانوں کو بارہا دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔ چرواہوں کی کہانی نے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی متوجہ کیا۔ جنہوں نے بھارت کے طریقۂ تفتیش پر شدید تنقید کی۔ یعنی
"جب حقیقت نہ ملے تو غریبوں کو قربانی کا بکرا بنا دو۔”
بھارتی میڈیا کا کردار بھی اس معاملے میں انتہائی جانبدارانہ رہا۔ 7 مئی کو NDTV اور زی نیوز جیسے چینلز نے دعویٰ کیا کہ مبینہ پاکستانی شہری قاری اقبال کو بھارتی فورسز نے مار دیا ہے۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد معلوم ہوا کہ جسے دہشت گرد قرار دیا گیا وہ پونچھ کا ایک مقامی اسکول ٹیچر تھا اور زندہ سلامت تھا۔
28 اور 29 جولائی کو تین مزید دہشت گردوں کے مارے جانے کی خبریں نشر ہوئیں مگر جلد ہی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں تین نئے نام پیش کر دیے، جن کا ان کارروائیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ تضاد واضح کرتا ہے کہ اصل میں کچھ بھی واضح نہیں تھا، صرف بیانیہ گھڑنے کی کوشش جاری تھی۔
"ہندوستانی میڈیا کے بیانیے، نیٹ فلکس کی کرائم سیریز سے زیادہ ٹویسٹ رکھتے ہیں۔”
شاید سب سے زیادہ مزاحیہ پہلو وہ شواہد تھے جو این آئی اے نے پیش کیے۔ ایک مبینہ حملہ آور کے قبضے سے پاکستانی ووٹر لسٹ، ایک پاکستانی برانڈ کی چاکلیٹ اور کچھ ہتھیار برآمد ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر عالمی صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے ان شواہد کا مذاق اڑایا۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی تربیت یافتہ دہشت گرد ووٹر لسٹ اور چاکلیٹ لے کر حملے پر جائے گا۔ اگر یہی شواہد ہیں تو دنیا کے ہر مسافر کو دہشت گرد قرار دینا ممکن ہو جائے گا۔
"یہ انسداد دہشت گردی نہیں بلکہ سیاسی تھیٹر ہے۔۔ اور تماشہ فری ٹکٹ میں عالمی سطح پر دیکھا جارہا ہے۔”
این آئی اے کی ساکھ بین الاقوامی سطح پر پہلے ہی مشکوک ہو چکی تھی۔ کینیڈین عدالتوں نے خالصتان تحریک کے کارکنوں کے خلاف پیش کیے گئے این آئی اے کے شواہد کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔ اب ممبئی ہائی کورٹ نے بھی پہلگام تحقیقات پر سوال اٹھائے۔
ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں نے بارہا بھارت میں زبردستی کے اعترافات، جھوٹے الزامات اور پولیس کی طرف سے کیے گئے جعلی مقابلوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔ سابق بھارتی وزراء اور فوجی افسران بھی این آئی اے کی سیاست زدہ کارکردگی پر کھلے عام سوال اٹھا چکے ہیں۔
یوں یہ واضح ہوگیا کہ جب تفتیش جھوٹ پر کھڑی ہو تو سچ عدالتوں اور دنیا کے سامنے ننگا ہو جاتا ہے۔
پہلگام کا واقعہ ایک المناک سانحہ تھا۔ مگر اس سے زیادہ افسوسناک اس واقعے کا سیاسی استعمال تھا۔ جب حکومتیں تفتیش کو سچ جاننے کا ذریعہ نہیں بلکہ اپنی ساکھ بچانے کا ہتھیار بناتی ہیں تو اصل مجرم کبھی نہیں پکڑے جاتے اور عوام کو صرف ایک نیا بیانیہ تھما دیا جاتا ہے۔
این آئی اے کی نام نہاد تحقیقات اور بھارتی میڈیا کے جانبدار رویے نے نہ صرف بھارتی عوام کو گمراہ کیا بلکہ عالمی برادری میں بھارت کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔
شواہد کے بجائے جھوٹے اعترافات، جعلی نام اور فلمی داستانیں پیش کر کے یہ ثابت کیا گیا کہ اصل مقصد سچ نہیں بلکہ سیاست ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ چاکلیٹ، ووٹر لسٹس اور جھوٹے اعترافات۔۔ یہی ہے مودی حکومت کی انسداد دہشت گردی۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
View all posts