Nigah

گلگت بلتستان کے مسائل اور موثر حکومتی اقدامات

nigah gilgit baltistan

گلگت بلتستان اپنے دلکش مناظر، بھر پور ثقافت اور متنوع قومیتوں کے حوالے سے حصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ فطرت کی گود میں بسنے والے گلگت بلتستان کے لوگ اس وقت شدید مشکلات سے نبردآزما ہیں۔ اپنی دلکش وادیوں اور تزویراتی اہمیت کے حامل گلگت بلتستان ان دنوں خبروں کا زینت بنا ہؤا ہے جس کی وجہ اس کی خوبصورتی نہیں بلکہ مقامی تاجروں میں بڑھتی ہوئی بے چینی ہے جس سے ان کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا گیٹ وے ہونے کے باوجود یہاں کے تاجر کاروبار کی بربادی کا رونا رو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں خنجراب بارڈر پر ایف بی آر کے خلاف تاجروں کے احتجاج نے ان کے بنیادی کاروباری مسائل کو اجاگر کیا ہے۔

اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش مسائل ان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ خطہ شمال کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس خطہ کے لوگوں کو درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ خطہ کی مبہم سیاسی حیثیت ہے اور یہاں کے لوگ آئینی حقوق کا رونا رو رہے ہیں۔ ان کی قانون ساز اداروں تک رسائی نہیں۔ صوبائی حیثیت کی عدم موجودگی اس کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیتی ہے اور فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کی ان کی صلاحیت کو ضائع کر دیتی ہے اور یہ عمل ان کی زندگیوں کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔

گلگت بلتستان سماجی و اقتصادی ترقی کے اشاریوں کے حوالے سے پاکستان کے دیگر خطوں سے پیچھے ہے۔ معیاری تعلیم، صحت کی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے تک محدود رسائی خطے میں غربت اور بے روزگاری کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ صنعت کاری اور سرمایہ کاری کی کمی مقامی آبادی کے لئے معاشی مواقع کو مزید محدود کرتی ہے۔

گلگت بلتستان میں معدنیات، صاف پانی اور قدرتی مناظر سمیت وافر قدرتی وسائل موجود ہیں تاہم ان وسائل کا استحصال اکثر مقامی آبادی کے لئے مناسب ضابطے یا فائدے کے اشتراک کے طریقہ کار کے بغیر ہوتا ہے۔

گلگت بلتستان میں خواتین سمیت پسماندہ گروہوں کو با اختیار بنانا ایک اہم مسئلہ ہے۔ روایتی پدرانہ اصول اور امتیازی طرز عمل خواتین کی تعلیم، روزگار اور فیصلہ سازی کے کردار تک رسائی کو محدود کرتے ہیں۔ ان کی سماجی و اقتصادی شرکت کو محدود کرتے ہیں اور صنفی عدم مساوات کو برقرار رکھتے ہیں۔

nigah baltistan

اسی طرح نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو سماجی اخراج اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے جس سے خطے میں سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے۔

اگرچہ گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش مسائل اہم ہیں، وفاقی حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے ہیں۔ گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 جیسے اقدامات کا مقصد خطے کو محدود خود مختاری دینا اور مقامی اداروں کو با اختیار بنانا ہے تاہم یہ اصلاحات سست روی کا شکار ہیں۔

حکومت نے رابطے بہتر بنانے اور خطے میں اقتصادی فروغ کے لئے شاہراہوں اور ڈیموں کی تعمیر سمیت بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبے شروع کئے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی کوششیں جیسے پن بجلی کے منصوبے، توانائی کی قلت دور کرنے اور اقتصادی ترقی کو تحریک دینے کی بھی کوشش کی گئی ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو گزشتہ کچھ عرصہ سے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تاجر پاک چین سرحد پر احتجاج کر رہے ہیں اور دھرنا دیا ہوا ہے اور ان کا احتجاج بدستور جاری ہے۔ احتجاجی تاجروں کا بنیادی موقف یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی غیر واضح آئینی حیثیت کے باوجود ان پر ایف بی آر کی جانب سے وہی وفاقی ٹیکس لاگو کئے جا رہے ہیں جو ملک کے دیگر آئینی صوبوں پر لاگو کئے جا رہے ہیں۔

آئینی حقوق سے محرومی اور مالی ذمہ داری کا بوجھ یہ تضاد بالخصوص نوجوان طبقے اور کاروباری طبقے میں غصے اور احساس محرومی کو بڑھا رہا ہے۔

nigah china border GB

دوسری طرف حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے عوام کے جائز مسائل کو پُرامن اور سنجیدہ انداز میں حل کرنے کے لئے مکمل طور پر پرعزم ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ہدایات پر ٹیکس تنازعات کے حل کے لئے ایف بی آر کی سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو 7 روز میں جامع سفارشات پیش کرے گی۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے شمس الحق لون کی قیادت میں ایک ثالثی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے جو مقامی قیادت کے ساتھ براہ راست اور موثر مذاکرات میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

علاقے میں احتجاج کے باعث اربوں روپے مالیت کے پھنسے ہوئے سامان کی بحالی کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے ایمنسٹی اسکیم تجویز کی گئی ہے تاکہ مقامی تاجروں کو فوری ریلیف دیا جا سکے۔

حکومت نے گلگت بلتستان کے احتجاجی عوام سے اپیل بھی کی ہے کہ پُرامن مذاکرات کو موقع دیں۔ گلگت بلتستان کے عوامی احتجاج کے باعث سڑک کی بندش سے اس وقت 46000 پاکستانی بے روزگار ہو چکے ہیں اور سڑک کی بندش سے قومی معیشت کو 2 ارب روپے سے زائد کا نقصان بھی ہو رہا ہے۔ اس لئے حکومت کی خواہش ہے کہ سڑک آمد و رفت کے لئے بحال کی جائے اور مظاہرین یہ وقت تعمیر، مذاکرات اور اتحاد کے لئے وقف کریں اور تصادم، تعطل یا کسی بیرونی ایجنڈے کا حصہ نہ بنیں۔

گلگت بلتستان احتجاج سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد اس بحران کے حل کے لئے ایک مربوط اور کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

  • گلگت بلتستان کے تاجروں کے لئے حصوصی تجارتی زون قائم کیا جائے جس میں انھیں ٹیکس میں چھوٹ دیا جائے، کسٹمز عمل کو آسان اور سہل بنایا جائے اور بینکنگ و انشورنس جیسی سہولیات فراہم کی جائیں۔
  • گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کو اس معاملے میں موثر کردار ادا کرنا چاہئے۔
  • اسی طرح خنجراب بارڈر کو سال بھر کھولا رکھا جائے تاکہ تجارت میں تسلسل قائم رہے اور موسمی نقصانات بھی کم ہوں۔
  • اگر ممکن ہو تو گلگت بلتستان کے لئے علحیدہ کسٹمز پالیسی متعارف کروائی جائے جو اس کے مخصوص آئینی و جغرافیائی حالات کے مطابق ہو۔
  • اسی طرح وفاقی اور علاقائی سطح پر مشترکہ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو باقاعدگی سے تاجر برادری کو درپیش مسائل کا جائزہ لے سکیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

گلگت بلتستان صرف ایک خوبصورت خطہ نہیں بلکہ ایک اہم تجارتی راہداری اور بے پناہ معاشی صلاحیت رکھنے والا علاقہ ہے۔ اس کے عوام اور تاجروں کی آواز کو سنا جانا چاہئے اور ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جانے چاہئیں تاکہ اقتصادی روٹ و ترقی میں خلل نہ پڑے۔


اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حمزہ خان

    ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔