بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) ایک ایسا عسکریت پسند گروہ ہے جسے پاکستان اور کئی دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ اس کے باوجود حالیہ شواہد اور واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت نہ صرف اس گروہ کی سرگرمیوں کو نظرانداز کر رہا ہے بلکہ اسے خفیہ اور اعلانیہ سطح پر سہارا بھی دے رہا ہے۔ یہ حمایت بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دہشت گردی کے خلاف عالمی عزم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پاکستانی سکیورٹی اداروں کی رپورٹس کے مطابق بھارت نے ایک منظم حکمت عملی کے تحت بی ایل اے کی سرگرمیوں کو سہارا دینے کے لیے تین بنیادی محاذوں پر کام کیا ہے۔
اول بھارتی میڈیا کے بعض حلقوں اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر ایک مربوط بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں بلوچستان کے حالات کو یکطرفہ اور مسخ شدہ انداز میں دکھایا جاتا ہے۔
دوم بھارتی رہنماؤں کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے بار بار بیانات دینا محض سفارتی زبان نہیں بلکہ داخلی سطح پر بی ایل اے کو اخلاقی جواز دینے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
سوم یہ کہ پاکستان نے متعدد مواقع پر شواہد پیش کیے ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں بی ایل اے کو مالی، لاجسٹک اور تربیتی مدد فراہم کر رہی ہیں۔
9 تا 11 جولائی 2025 کے واقعات بھارتی حکمت عملی کی تازہ ترین جھلک پیش کرتے ہیں۔ ان تاریخوں کے دوران بھارتی میڈیا میں ایک مربوط مہم چلائی گئی جس میں بلوچستان کے حوالے سے جعلی خبریں اور غیر مصدقہ ویڈیوز پھیلائی گئیں۔ مقصد یہ تھا کہ عالمی رائے عامہ میں پاکستان کے خلاف تاثر پیدا کیا جائے اور بی ایل اے کو آزادی کی تحریک کے طور پر پیش کیا جائے حالانکہ بین الاقوامی سطح پر یہ گروہ دہشت گرد قرار پایا ہوا ہے۔
ہائبرڈ وارفیئر ایسی جنگی حکمت عملی ہے جس میں روایتی فوجی طاقت، سائبر حملے، میڈیا پروپیگنڈا اور معاشی دباؤ کو یکجا کر کے ہدف کو کمزور کیا جاتا ہے۔ بھارت کا بی ایل اے کی حمایت میں کردار اسی طرز کی ایک مثال ہے جہاں میڈیا کے ذریعے ذہن سازی اور زمینی سطح پر عسکری مدد ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 واضح طور پر رکن ممالک کو پابند کرتی ہے کہ وہ کسی بھی دہشت گرد گروہ کو مالی یا مادی مدد فراہم نہیں کریں گے۔ بھارت کا بی ایل اے کی حمایت میں سرگرم ہونا اس قرارداد اور دیگر انسداد دہشت گردی معاہدات کی صریح خلاف ورزی ہے۔
مزید یہ کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی بھی ریاست کو دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہے چاہے یہ مداخلت عسکری ہو یا اطلاعاتی۔
پاکستانی وزارت خارجہ اور سکیورٹی ادارے بارہا عالمی برادری کے سامنے بی ایل اے اور بھارت کے روابط کے ثبوت رکھ چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی ایسے نیٹ ورک بے نقاب ہوئے جن کے ذریعے فنڈنگ اور اسلحہ بلوچستان میں پہنچایا جا رہا تھا۔ پاکستان اس معاملے کو نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھی اٹھا رہا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی میڈیا کا بڑا حصہ اس معاملے پر یا تو خاموش ہے یا پھر بھارتی بیانیے کو بغیر تصدیق کے آگے بڑھاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بین الاقوامی رائے عامہ بھارت کے اقدامات کو نظرانداز کرتی ہے اور دہشت گردی کے اصل متاثرین کی آواز دب جاتی ہے۔
بی ایل اے کی سرگرمیوں اور بھارتی حمایت نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بلوچستان جو پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کا اہم حصہ ہے، عالمی تجارتی راستوں کے لیے ایک کلیدی خطہ ہے۔ یہاں عدم استحکام پیدا کرنا براہ راست خطے کی معاشی ترقی اور سلامتی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اور بڑے طاقتور ممالک کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ بھارت کی جانب سے بی ایل اے کو دی جانے والی حمایت نہ صرف پاکستان کی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔ اگر اس رویے کو نظرانداز کیا گیا تو دیگر ریاستیں بھی اپنے مقاصد کے لیے دہشت گرد گروہوں کو استعمال کرنے کا حوصلہ پائیں گی۔
پاکستان کے پاس اس معاملے کو آگے بڑھانے کے کئی راستے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں باضابطہ شکایت درج کرانا،
عالمی عدالت انصاف میں قانونی چارہ جوئی اور او آئی سی اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے پلیٹ فارمز پر بھارت کے کردار کو بے نقاب کرنا۔
بلوچستان لبریشن آرمی کی حمایت میں بھارتی میڈیا اور ریاستی پالیسی نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ خطے میں ایک خطرناک رجحان کو فروغ دے رہی ہے۔ پاکستان اور عالمی برادری کو اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر، دہشت گرد گروہوں کو ریاستی پشت پناہی دینے کا یہ رجحان عالمی امن و سلامتی کو مزید غیر مستحکم کر دے گا۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003
View all posts

