Nigah

ہندوستانی میڈیا کی مہم اور بلوچستان بیانیے سے ہائبرڈ جنگ تک

جولائی 2025 کے وسط میں جنوبی ایشیا میں ایک نئی اطلاعاتی جنگ نے جنم لیا۔ یہ محض روایتی میڈیا کوریج نہیں تھی بلکہ ایک مربوط اور منصوبہ بند مہم تھی جس کا مقصد بلوچستان کو عالمی سطح پر ایک مزاحمتی تھیٹر کے طور پر پیش کرنا اور پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو مشکوک بنانا تھا۔ 9 سے 11 جولائی کے درمیانی عرصے میں بھارتی میڈیا کے مختلف شعبے چاہے وہ انگریزی زبان کے اخبارات ہوں، ہندی نیوز چینلز یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ایک ہم آہنگ بیانیے کے ساتھ سامنے آئے۔

یہ بیانیہ تین مختلف مرحلوں میں آگے بڑھایا گیا:

  1. بی ایل اے کو شہری حقوق کی تحریک کے طور پر پیش کرنا۔
  2. پاکستان پر فوجی مظالم کے الزامات لگانا۔
  3. نسلی منافرت بھڑکانا یعنی وطن عزیز کی پنجابی آبادی کے خلاف جھوٹے دعوے پھیلانا۔

اس پوری مہم میں نہ صرف حقائق کو مسخ کیا گیا بلکہ ایک ایسی تصویر بنائی گئی جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا اور پاکستان کے اندرونی استحکام کو متاثر کرنا تھا۔

BLA nigah pk news

9 جولائی کو بھارتی خبر رساں ادارے ANI نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں ترکات کے علاقے میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا دعویٰ کیا گیا۔ اس رپورٹ کو دی ٹریبیون، دی اسٹیٹس مین اور اوپی انڈیا نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا۔ خبر میں گلزار دوست نامی ایک شخص کو احتجاجی رہنما قرار دیا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بی ایل اے کو پاکستان سمیت متعدد ممالک میں ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا جا چکا ہے۔ تاہم بھارتی میڈیا نے اس حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے اسے ایک انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر پیش کیا۔

یہ طریقہ کار محض خبر رسانی نہیں بلکہ صحافتی بددیانتی کا اعلیٰ نمونہ تھا، جس میں ایک دہشت گرد گروہ کو نرم لہجے میں بیان کر کے اسے قابلِ ہمدردی قرار دیا گیا۔

اگلے ہی دن بیانیہ ایک قدم آگے بڑھا۔ این ڈی ٹی وی، ٹائمز آف انڈیا اور انڈیا ڈیفنس نیوز نے آپریشن بام نامی ایک سلسلہ وار حملوں کی خبریں چلائیں جن میں 17 پاکستانی فوجی اہلکاروں پر حملوں کا دعویٰ کیا گیا۔ اس پروپیگنڈے میں بی ایل اے کو باغی قوت کے طور پر پیش کیا گیا اور اس کی کارروائیوں کو آزادی کی جدوجہد کا حصہ قرار دیا گیا۔

یہ حکمتِ عملی دراصل عالمی سطح پر دہشت گردی کی تعریف کو دھندلا کرنے اور عسکریت پسندی کو جمہوری مزاحمت کے طور پر بیچنے کا ایک خطرناک عمل ہے۔

مہم کا آخری دن سب سے زیادہ زہریلا تھا۔ ہندوستان ٹائمز، آج تک اور امر اجالا نے ایسی خبریں چلائیں جن میں بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے پنجابیوں کے خلاف نسلی صفائی کے جھوٹے دعوے شامل تھے۔ اس کا مقصد بین الاقوامی برادری کے سامنے پاکستان کو ایسے ملک کے طور پر پیش کرنا تھا جہاں نسلی اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس کے ساتھ ہی #FreeBalochistan، #BalochistanBleeds اور #RepublicOfBalochistan جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے۔ جنہیں نہ صرف بھارتی اثرورسوخ رکھنے والے اکاؤنٹس نے بڑھایا بلکہ بوٹس اور ریاستی حمایت یافتہ پلیٹ فارمز نے بھی منظم طریقے سے پھیلایا۔

یہ سب کچھ آزاد صحافت نہیں بلکہ ریاستی سرپرستی میں چلنے والی ایک مکمل اطلاعاتی جنگ تھی۔

بھارتی میڈیا کی یہ مہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی اہم قراردادوں کی براہِ راست خلاف ورزی ہے۔

قرارداد 1373 (2001) کے مطابق کسی بھی ریاست کی جانب سے دہشت گرد اداروں کو مالی یا دیگر حمایت فراہم کرنے کی ممانعت ہے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد 1624 (2005) کے مطابق میڈیا یا تقریر کے ذریعے دہشت گردی کو بھڑکانے یا اس کی تعریف کرنے پر پابندی ہے جبکہ قرارداد 2396 (2017) آن لائن پلیٹ فارمز کے غلط استعمال سمیت دہشت گردی کے فروغ کو جرم قرار دیتی ہے۔

 

بھارت کا بی ایل اے کے بیانیے کو بڑھاوا دینا، اسے دہشت گرد تنظیم تسلیم نہ کرنا اور بین الاقوامی فورمز پر اس کی حمایت، ان تمام قراردادوں سے کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔

بلوچستان لبریشن آرمی کو محض پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی بڑی طاقتیں بھی دہشت گرد تنظیم کے طور پر تسلیم کر چکی ہیں۔
امریکہ نے 2019 میں بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد قرار دیا۔
برطانیہ نے بھی انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت بی ایل اے پر پابندی عائد کی، جبکہ یورپی یونین نے بی ایل اے کو پرتشدد علیحدگی پسند تنظیم کے طور پر درجہ بندی میں شامل کیا۔

اس واضح عالمی مؤقف کے باوجود بھارتی میڈیا نے بارہا بی ایل اے کے رہنماؤں کو اپنے پرائم ٹائم شوز میں جگہ دی اور ان کے علیحدگی پسند نعروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

بھارتی ریاست کا یہ رویہ نیا نہیں۔ 2016 میں وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے یومِ آزادی کے خطاب میں کھلے عام بلوچستان، گلگت اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کا ذکر کیا۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت تھا بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کی بھی صریح خلاف ورزی تھی۔

یہی نہیں، بھارتی پالیسی ساز بارہا بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسند گروہوں کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض میڈیا مہم نہیں بلکہ بھارت کی ریاستی حکمتِ عملی ہے۔

2016 میں بلوچستان سے بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن جادھو کی گرفتاری نے بھارتی بیانیے کی قلعی کھول دی۔ جادھو نے اقبالی بیان میں اعتراف کیا کہ وہ بی ایل اے سمیت کئی علیحدگی پسند گروہوں کو مالی، لاجسٹک اور انٹیلی جنس معاونت فراہم کرتا رہا ہے۔

یہ کیس واضح کرتا ہے کہ بھارت کی مداخلت صرف پروپیگنڈے تک محدود نہیں بلکہ زمینی سطح پر عسکریت پسندی کی عملی سرپرستی بھی شامل ہے۔

9 سے 11 جولائی 2025 کی بھارتی میڈیا مہم محض چند دنوں کی خبری ہلچل نہیں بلکہ ایک طویل المدتی ہائبرڈ وار فیئر حکمتِ عملی کا حصہ تھی۔ اس کا مقصد پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنا، اندرونی اختلافات کو ہوا دینا اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔

بین الاقوامی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس طرزِ عمل کو صرف سیاسی اختلافات کے تناظر میں نہ دیکھے بلکہ اسے بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دہشت گردی کے خلاف عالمی عزم کی کھلی خلاف ورزی سمجھے۔ اگر اس پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو خطے کا امن ایک ایسے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے جس کے اثرات سرحدوں سے بہت آگے تک جائیں گے۔


اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حسین جان

    حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔