Nigah

سپریم کورٹ کا فیصلہ، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی 3 نشستیں بڑھ گئیں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp

سپریم کورٹ نے این اے 154، این اے 81 اور این اے 79 میں مختلف پولنگ اسٹیشنز کی دوبارہ گنتی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔

سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف لیگی امیدواروں کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ن لیگ کے امیدواروں کی اپیلیں منظوری کرلیں۔

سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے این اے 154 لودھراں، این اے 81 گجرانوالہ اور این اے 79 گوجرانوالہ میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کردیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 2:1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ جسٹس عقیل عباسی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے تین آزاد امیدوار این اے 154 سے رانا فراز نون، این اے 81 گوجرانوالہ سے بلال اعجاز اور این اے 79 گوجرانوالہ سے احسان اللہ ورک کامیاب امیدوار قرار پائے تھے۔ ن لیگ کے عبدالرحمان کانجو، اظہر قیوم نارا اور ذوالفقار احمد نے دوبارہ گنتی کیلئے الیکشن سے رجوع کیا۔

دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کمیشن نے ن لیگ کے تینوں امیدواروں کو کامیاب قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آزاد اراکین نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن کے تحت چیلنج کیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تینوں امیدواروں کو کامیاب امیدوار قرار دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف ن لیگ کے اراکین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بحال کرتے ہوئے ن لیگ کے امیدواروں کی اپیلیں منظوری کیں۔ سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ 24 صفحات اوراختلافی نوٹ 23 صفحات پرمشتمل ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ن لیگ کے تینوں اراکین قومی اسمبلی کامیاب قرار پائے۔ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں ووٹوں کی گنتی سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں۔

الیکشن ایکٹ کی سیکشن 95 پانچ کے مطابق ریٹرننگ افسر دوبارہ گنتی کروا سکتا ہے، الیکشن ایکٹ کے مطابق کل کاسٹ کیے گئے ووٹوں میں پانچ فیصد فرق پر دوبارہ گنتی ہوسکتی ہے، قومی اسمبلی کیلئے آٹھ ہزار اور صوبائی اسمبلی کیلئے چار ہزار ووٹوں کے فرق پر دوبارہ گنتی ہوسکتی ہے، مسترد ووٹوں کی تعداد جیت کے تناسب سے زیادہ یا برابر ہو تو بھی دوبارہ گنتی ہوسکتی ہے، لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو نظرانداز کیا، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران احترام کے حقدار ہیں، بدقسمتی سے کچھ ججز اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے تضحیک آمیز ریمارکس دیتے ہیں، آئینی ادارہ اور آئینی عہدے دار احترام کے مستحق ہیں، ادارے کی ساکھ میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب وہ احترام کے دائرہ فرائض سر انجام دے، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تین حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستیں 9 اور دس فروری کو آ گئی تھیں۔

5 اگست 2023 کو الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے ذریعے ریٹرننگ افسر کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا اختیار دیا گیا، جب ہائیکورٹ میں کیس گیا اس وقت یہ ترمیم موجود تھی، ہائیکورٹ نے سیکشن 95 کی ذیلی شق 5 کو مدنظر ہی نہیں رکھا۔

جسٹس عقیل احمد عباسی نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہےکہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کوئی قانونی یا حقائق کی غلطی نہیں، ہائیکورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی ضرورت نہیں، لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف اپیلیں خارج کی جاتی ہیں، لاہور ہائیکورٹ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن کے مختلف فیصلے کا حوالہ دیا، الیکشن کمیشن نے متعدد مقدمات میں انتخابی نتائج حتمی ہونے پر درخواستیں خارج کیں، ہائیکورٹ کے ان مثالوں کو سپریم کورٹ میں کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔

اہم ترین

Scroll to Top