Nigah

جسٹس منصور علی شاہ کی امریکی سفارتکاروں سے گپ شپ کیلئے بےتابی، عبدالقیوم صدیقی کی کڑی نگاہ، خبر کیسے نکالی؟

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں منعقدہ تقریب کے دوران امریکی سفارتکاروں کے ساتھ ملاقات ارینج کروانے کا ایک اہم واقعہ پیش آیا ہے، اس دوران دوطرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کے غیر رسمی مواقع بھی فراہم کیئے گئے، اس دوران جسٹس منصور علی شاہ کی امریکی سفارتکاروں سے گپ شپ کیلئے بےتابی سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی کی کڑی نگاہ نے کس طرح بھانپی اور ایکسپوز کی، اس بڑے صحافتی سکوپ کے حوالے سے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر تبصروں اور تجزیوں کا طوفان آ گیا ہے، یہ خبر سب سے پہلے جنگ اور جیو نیوز سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے سینئر رپورٹر عبدالقیوم صدیقی نے یوٹیوب پر اپنے وی لاگ میں شیئر کی جس میں ان کے ساتھ 2 اور سینئر رپورٹرز جہانزیب اور طیب بلوچ بھی شریک تھے، عبدالقیوم صدیقی نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک دلچسپ ٹویٹ بھی کیا، سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد منصور سمیت مختلف ایکٹو جرنلسٹس اور سیاسی لوگوں نے عبدالقیوم صدیقی، طیب بلوچ اور جہانزیب کے اس مشترکہ وی لاگ کا لنک شیئر کرکے ٹویٹس کیئے جن میں اس معاملے کے مختلف اہم پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور دلچسپ تبصرے بھی کیئے گئے ہیں۔

اپنے وی لاگ میں عبدالقیوم صدیقی نے بتایا کہ ‏آج مارگلہ موٹل اسلام آباد میں اقلیتوں بارے سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے سینٹر فار سوشل جسٹس کے تحت تقریب تھی مہمان خصوصی سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ تھے، تقریب میں دیگر غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ امریکی سفارتخانے کی شخصیات بھی پہلی صف میں موجود تھیں، جب جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی تقریر ختم کی اور پیٹر جیکب نے انہیں گلدستہ پیش کیا تو اس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے روسٹرم پر کھڑی خاتون کو، جو تقریب کنڈکٹ کر رہی تھیں، کہا کہ میں نیچے بیٹھ سکتا ہوں؟

عبدالقیوم صدیقی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک تقریب ختم نہ ہو مہمان خصوصی تو اسٹیج پر بیٹھتا ہے، نیچے بیٹھ سکتا ہوں سے مراد کیا تھی؟ وہ یہ تھی کہ اس تقریب میں امریکی سفارتکار بھی موجود تھے، ان میں سے ایک تھے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے پولیٹیکل سیکرٹری، اور ایک اور صاحب تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اسٹیج چھوڑ کر خاتون اسٹیج سیکرٹری سے پوچھا کہ میں نیچے بیٹھ سکتا ہوں تو اس نے جواب دیا، جی جناب جیسے آپ کی مرضی!

پھر شاہ صاحب، نیچے پہلی صف میں امریکی سفارتکاروں کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے، پھر ادھر تقریب چلتی رہی اور ادھر گپ شپ چلتی رہی، کیمرے کی آنکھ نے یہ تمام ایکسکلوسو لمحات ریکارڈ کر لیئے۔

اس وی لاگ کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ٹویٹ میں سینئیر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے مزید لکھا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی تقریر کا آغاز ان جملوں سے کیا، ہندووں کو نمستے، سکھوں کو ست سری اکال اور مسلمانوں کو السلام و علیکم! میں نے سر گھما کر پورے ہال کا جائزہ لیا لیکن وہاں مجھے تقریب میں کوئی سکھ نظر نہیں آیا، پھر شاہ جی نے کہا کچھ انگریزی، اور دل کی باتیں اردو میں کرونگا، تو امریکی مہمانوں میں سے ایک نے نہایت شستہ انداز میں اردو میں کہا “ کوئی بات نہیں“ ۔۔۔ شاہ جی نے ان کی طرف دیکھا روایتی انداز میں مسکرائے، اور اظہار خیال شروع کر دیا، شاہ صاحب نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق مختلف مذاہب کی کتابوں قرآن پاک اور آئین پاکستان کے حوالے دے کر خوبصورت تقریر کی، اور یقین دلایا کہ فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے چیف جسٹس اور ججز کمیٹی میں بات کریں گے، اس پر بھی بات ہو سکتی ہے لیکن فی الحال اس کو چھوڑتے ہیں، شاہ جی نے تقریر ختم کی اسٹیج سے اترے گل دستہ لیتے دیتے لیتے تصاویر بنیں اور کہا کہ اسٹیج چھوڑ کر باقی ماندہ تقریب میں وہ نیچے بیٹھیں گے اور پھر شاہ جی امریکی سفارتخانے کے پولیٹیکل سیکرٹری کے ساتھ بیٹھے گئے اور باقی ماندہ تقریب کے دوران گپ شپ بھی لگائی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی اور پھر ملحقہ کمرے کو بند کر کے بیس منٹ تک چائے بھی نوش کی، اس طرح اس تقریب کا اختتام ہوا۔ بطور وکیل شاہ جی کبھی الیکشن لڑنے کا بھی ارادہ رکھتے تھے لیکن پھر وہ جج بن گئے اور اب اگلے چیف جسٹس پاکستان ہونگے۔

عبدالقیوم صدیقی کے اس طویل ٹویٹ میں بھی معنوں کا ایک جہاں پوشیدہ ہے، اور انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ کی طرف اسٹیج چھوڑ کر امریکی سفارتکاروں کے پہلو میں بیٹھنے کے حوالے سے بےتابی کا جو چھوٹا سا کلپ شیئر کیا ہے، اسے بلاشبہ ایک بڑا اسکوپ قرار دیا جا رہا ہے، عام لوگوں نے اسے ایک عمومی سا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا، لیکن صحافیوں کی نگاہ بصیرت واقعات کو ان کی گہرائی میں اتر کر دیکھتی اور رپورٹ کرتی ہے، اور یہی ذہنی و فکری صلاحیت بڑے صحافیوں کو عام رپورٹرز سے ممتاز کرتی ہے۔ اور عبدالقیوم صدیقی کی اسی صلاحیت نے ان کے اس وی لاگ کو یادگار بنا دیا۔

اہم ترین

Scroll to Top