Nigah

عمران خان نے 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کی جیب میں کیسے ڈالے؟ سزا سے بچنا ناممکن کیوں؟ طلعت حسین نے کیس کا پوسٹمارٹم کر دیا

تحقیقات کے مطابق القادر ٹرسٹ کیس مفادات کے ٹکراؤ کی ایک کلاسک مثال ہے، جس میں عمران خان ملوث ہیں۔ نیب کے مطابق اس کیس میں ٹھوس شواہد موجود ہیں اور عمران خان کا اس کیس سے بچنا مشکل نظر آتا ہے
Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp

بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ملی بھگت سے 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض کی جیب میں کیوں اور کیسے ڈالے؟ اور اس کھیل میں شہزاد اکبر کا کیا کردار تھا اور اب تمام ملزمان کا سزا سے بچنا ناممکن کیوں ہے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کیلئے سماء نیوز کے اینکر پرسن طلعت حسین نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا تفصیلی پوسٹمارٹم کر دیا ہے، اپنے ٹاک شو ریڈ لائن میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے، برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ایک بڑا کالا دھن پکڑا جو پاکستان سے برطانیہ منتقل کیا گیا تھا۔ جب انہوں نے اس کالے دھن کے مالک ملک ریاض سے پوچھا کہ یہ پیسہ کیسے آیا اور کیا آپ نے ٹیکس دیا یا نہیں دیا تو پتہ چلا کہ موصوف یہاں سے پیسہ مبینہ طور پر بغیر ٹیکس کے نکال کر لے گئے تھے۔ اس کے بعد ملک ریاض نے این سی اے کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا اس معاملے کو طے کروانے میں عمران خان کے نمائندہ خصوصی شہزاد اکبر کا بڑا کردار رہا اور یہ طے پایا کہ 190 ملین پاؤنڈز کی کالے دھن کی رقم کو پاکستان کو واپس کرنا ہے۔ برطانیہ کے اندر یہ روایت ہے کہ ایسی رقوم جن ممالک سے اوریجنیٹ کی جاتی ہیں ان کو واپس کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان کی حکومت کیطرف سے شہزاد اکبر نے یہ ڈیل سیل کی اور این سی اے کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ رقم پاکستان کی حکومت کو واپس مل جائے گی۔

طلعت حسین نے مزید بتایا کہ ملک ریاض اور حکومت برطانیہ کے درمیان طے ہونے والے معاملات کو پاکستان کے اندر تادیبی کاروائی کا حصہ نہیں بنایا گیا بلکہ ملک ریاض کو فناننشل طور پر سپورٹ کرنے کے لیے اور ان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے اس رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں جمع کروا دیا گیا جس سے ملک ریاض کا تو پھر ڈبل فائدہ ہوگیا۔ ملک ریاض کے خلاف کالا دھن سفید کرنے کی اور پاکستان سے پیسے نکالنے کے وائٹ کالر کرائم کے خلاف باقاعدہ کاروائی ہونی چاہیے تھی لیکن نہ یہ کارروائی کی گئی بلکہ ان سے برآمد ہونے والی کالے دھن کی اس بڑی رقم کو پاکستان میں کسی اور کیس میں انہیں ہونے والے جرمانے کی وصولی کی مد میں ایڈجسٹ کر دیا گیا، یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے ایک اور کیس میں ملک ریاض کو 60 بلین روپے جرمانہ کیا تھا۔

طلعت حسین نے اپنے پروگرام کے دوران القادر یونیورسٹی جا کر وہ زمین بھی اپنے پروگرام میں دکھائی جو اس ڈیل کے عوض عمران خان اور بشریٰ بی بی نے القادر ٹرسٹ کے نام پر ان 190 ملین پاؤنڈ کے بدلے وصول کی، طلعت حسین کا کہنا تھا کہ جس زمین پہ ہم کھڑے ہیں مبینہ طور پر اس زمین کے علاوہ دوسری زمینیں بھی اس تمام بھاؤ تاؤ کا حصہ تھیں۔ عمران خان اور بشریٰ بیگم پر الزام یہ ہے کہ اس غیر قانونی فیور کے بدلے ملک ریاض نے تقریبا 450 کنال کے قریب رقبہ عمران خان اور بشریٰ بیگم کے نام کیا۔

طلعت حسین نے مزید کہا ہے کہ عمران خان کے مطابق القادر یونیورسٹی پاکستان کے اندر سوچ اور جذبے کا انقلاب برپا کر دے گی لیکن یہ یونیورسٹی بنیادی طور پر اس ڈیل کا سینٹر پیس ہے جس کے ذریعے ملک ریاض کو 190 ملین پاؤنڈ کا فائدہ دیا گیا۔

انڈیپینڈنٹ اردو کے سوشل میڈیا ایڈیٹر ثاقب تنویر نے سماء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ القادر یونیورسٹی کے حوالے سے سکینڈل تب سامنے آیا جب پہلی دفعہ رانا ثنا اللہ نے 2022 میں اس بارے میں بات کی تھی۔ اس سکینڈل کے آنے سے پہلے القادر یونیورسٹی کی ویب سائٹ اور اسکے فیس بک اور یوٹیوب پیجز پر عمران خان کی ویڈیوز اور تقاریر موجود تھیں لیکن جب سے یہ اسکینڈل سامنے آنا شروع ہوا ہےتو اس کے بعد سے عمران خان کی ایک بھی فوٹو اپلوڈ نہیں کی گئی۔ اب اس ویب سائٹ کے اوپر چیئرمین پی ٹی آئی کا میسج تو آتا ہے لیکن عمران خان کی پروموشنل ایکٹیوٹیز اور ان کی تقریریں کبھی نہیں ڈالی گئیں۔

ثاقب تنویر نے مزید بتایا کہ القادر یونیورسٹی کی ویب سائٹ میں عمران خان کا فٹ پرنٹ بہت کم کر دیا گیا ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ملک ریاض جنہوں نے اس یونیورسٹی کی زمین عطیہ کی اور یونیورسٹی بنا کر دی ان کا ذکر کہیں پر بھی نہیں۔ پوری ویب سائٹ کے اندر ملک ریاض کا نام کہیں پر بھی موجود نہیں تھا اور اس کی سیاسی وجوہات ہیں۔

سینئر صحافی و تجزیہ کار حسن ایوب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بظاہر القادر ٹرسٹ کا کیس ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ اس کیس کے اندر بانی چیئرمین تحریک انصاف اور بشریٰ بیگم کے ملوث ہونے کے بڑے ٹھوس شواہد موجود ہیں اور یہ بڑا مضبوط کیس ہے جبکہ تحریک انصاف واویلا کرتی ہے کہ یہ پولیٹیکلی موٹیویٹڈ کیس ہے۔ این سی اے کے ضبط کیے 190 ملین پاؤنڈ پاکستان اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں تو جمع نہیں ہوئے بلکہ وہ رقم سپریم کورٹ نے ملک ریاض پر جو جرمانہ لگایا گیا تھا اس مد میں ایڈجسٹ کر دی گئی۔ یعنی صافی ملک ریاض کی جیب میں ڈال دی۔ ملک ریاض کے ساتھ ساتھ بانی چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم اس معاملے کے اصل بینیفیشری ہیں۔

ایڈیٹر انویسٹی گیشن ہم نیوز زاہد گشکوری نے اس بڑے اسکینڈل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیقات کے مطابق القادر ٹرسٹ کیس مفادات کے ٹکراؤ کی ایک کلاسک مثال ہے، جس میں عمران خان ملوث ہیں۔ نیب کے مطابق اس کیس میں ٹھوس شواہد موجود ہیں، اور اسی بنیاد پر کیس آگے بڑھایا گیا ہے۔ کیس تقریباً مکمل ہے، لیکن عدالتوں میں کچھ وجوہات کی بنا پر لٹکا ہوا ہے۔ یہ ایک اہم مثال بن سکتا ہے، چاہے فیصلہ کوئی بھی آئے ان کے لیے اس کیس سے بچنا مشکل نظر آتا ہے، خاص طور پر جب کہ کچھ دوسرے ملزمان ملک سے باہر ہیں۔

اہم ترین

Scroll to Top