بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات اور شناختی کارڈ چیک کر کے پنجابیوں کو شہید کرنے کے معاملے پر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار اور سیاسی رہنماء کدھر گئے، ماہ رنگ بلوچ، اختر مینگل اور بلوچ لیڈرز کیوں خاموش ہیں، سنیئر صحافیوں عمار مسعود، محمد مالک، کامران شاہد اور دیگر نے سوال اٹھا دیا۔
بلوچستان میں دہشتگردوں کی جانب سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے شناختی کارڈ چیک کر کے شہید کرنے کے بزدلانہ اقدام اور اس پر بلوچ حقوق کا راگ الاپنے والے انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں اور سیاسی رہنماوں کی خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، سنیئر صحافی عمار مسعود نے وسیم عباسی کے ساتھ پوڈ کاسٹ کے دوران سوال اٹھایا کہ ماہ رنگ بلوچ بلوچوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں اور انکی بات اثر بھی رکھتی ہیں لیکن کیا کہیں انہوں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر مارنے والوں کی مذمت کی یا انہیں کبھی روکا،نہیں ایسا کہیں نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب معروف اینکر پرسن کامران شاہد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں نہتے اور معصوم پاکستانیوں کو ٹارگٹ کر کے مارا گیا۔ ریاست سمجھتی ہے کہ یہ بی ایل اے نے کیا ہے۔ ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے انسانیت کے اس قتل عام کی مذمت تک نہیں کی۔ ریاست اس پہ شدید غصے میں ہے اور ردعمل میں کاروائی کر کے21 دہشتگردوں کو ہلاک کرچکی ہے۔ 14 جوان شہید ہوئے ہیں۔
کامران شاہد کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر واضح کر چکے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اسکی نام نہاد لیڈر شپ دہشتگردوں کی پراکسی ہے جسکا مقصد صرف فورسز کے خلاف پروپیگنڈا کرنا اور بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کو متنازعہ بنانا ہے۔ انکا طریقہ واردات یہ ہے کہ ایک بیرونی بیانیے پہ ایک جتھا جمع کرو۔ اس کے گرد معصوم شہریوں کو اکھٹا کرو۔ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرو، پتھراؤ کرو اور بےجا ڈیمانڈ پیش کرو۔ ریاست جواب دے تو پھر رونا ساتھ ہی انکے بیرونی ہینڈلرز انسانی حقوق کے نام پہ شروع ہو جاتے ہیں۔
معروف اینکر محمد مالک نے بھی اس حوالے سے سوال اٹھایا اور کہا کہ آج بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس پہ اختر مینگل اور کئی بلوچ لیڈر خاموش ہیں۔ جب ماہ رنگ بلوچ کا جلوس آیا تھا تو پی ٹی آئی نے بھی معاملہ اٹھایا۔ لیکن آج اس واقعے پہ ماہ رنگ بلوچ بھی خاموش ہے، پشتین بھی خاموش ہے، ہیومن رائٹس والے بھی سارے خاموش ہیں۔ کیونکہ آج سوٹ نہیں کر رہا۔ خواجہ آصف نے آج ٹھیک بات کی کہ کیا یہ مظلوم نہیں ہیں؟ ان پہ بات کیوں نہیں ہوتی؟
دوسری جانب شاہد رند کا کہنا ہے کہ وزیراعلی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر ہم چیک پوسٹ لگائیں تو تلاشی پہ اعتراض ہوتا ہے اور نہ لگائیں تو پھر کہا جاتا ہے ریاست کہاں تھی؟ وزیراعلی نے آپریشن کی بات نہیں کی۔ وزیراعلی نے یہ کہا کہ جہاں ضرورت ہوگی وہاں انٹلیجنس بیسڈ آپریشن ہونگے۔
سنیئر صحافیوں کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب ماہ رنگ بلوچ، اختر مینگل، منظور پشتین اور دیگر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار کب دیں گے یہ دیکھنا ہوگا، کیونکہ انسانی حقوق کےلئے بلا تفریق کام کیا جاتا ہے اسکے لئےرنگ، نسل، مذہب سمیت کوئی تفریق نہیں ہوتی اور اگر ان رہنماؤں کی طرف سے اس حوالے سے کوئی بھی عملی قدم سامنے نہیں آتا تو بات واضح ہے کہ انکے حقوق کے حوالے بیانات صرف اپنے مفاد اور سستی شہرت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہیں اور کچھ نہیں۔