اس وقت پاکستان میں کرنٹ افیئرز اینکر پرسنز کی صف اول اور دوسری صف کی تنخواہیں کتنی ہو چکی ہیں؟ اس حوالے سے پوڈ کاسٹ میں سینئر صحافی فرحان ملک نے گھر کے بھیدی کی حیثیت سے سنسنی خیز انکشافات کیئے ہیں، بھاری تنخواہوں کے نشے اور ریٹنگ کی دوڑ نے مل کر ہمارے ملک کے میڈیا کی عوامی اور قومی دونوں حوالوں سے کیا حالت کر دی ہے؟ یہ اونچی دوکان پھیکا پکوان ملک و قوم کو کس طرف لے کر جا رہا ہے؟ اور اسے "سدھارنے” کی ذمے داری اب کس پر ہے؟ اس حوالے سے بھی بحث شروع ہو گئی ہے، آج کی اس پوڈ کاسٹ اسپیشل رپورٹ کے آخر میں اس دلچسپ پہلو کو بھی ڈسکس کیا گیا ہے۔
سماء کے ڈائریکٹر نیوز سمیت مختلف نیوز چینلز میں کلیدی عہدوں پر خدمات انجام دینے والے فرحان ملک آج کل "رفتار” کے نام سے ڈیجیٹل میڈیا چلا رہے ہیں، رفتار پوڈ کاسٹ میں میزبان فیصل سے گفتگو کرتے ہوئے فرحان ملک کا کہنا ہے کہ وہ صف اول کے کرنٹ افیئرز اینکرز کی تو بات ہی نہیں کر رہے جو پچاس پچاس لاکھ یا کروڑوں روپے ماہانہ سیلری لیتے ہیں، پاکستان کے جو سات آٹھ بڑے نیوز چینلز ہیں ان میں اینکرز کی دوسری صف کی تنخواہ بھی پندرہ سے بیس لاکھ روپے ماہانہ ہو چکی ہے، صرف ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلنے کیلئے!
فرحان ملک کہتے ہیں کہ آپ شام کو ایک گھنٹے کیلئے اسکرین پر بیٹھیں، ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلیں اور یہ جا وہ جا، جن لوگوں کا شو 8 بجے شروع ہوتا ہے وہ 7 بج کر 58 منٹ پر آفس میں داخل ہوتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو بلاشبہ بڑی محنت کر رہے ہیں اور میں ان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، لیکن زیادہ تر سات پچپن، سات اٹھاون پر دفتر میں داخل ہوتے ہیں، مطلب اپنی گاڑی سے نکل کر اسٹوڈیو میں داخل ہوتے ہیں، ادھر سے ہیڈ لائنز شروع ہوتی ہیں ادھر یہ اسٹوڈیوز میں داخل ہو کر اپنی دوکان سنبھال رہے ہوتے ہیں، اور تنخواہ پتہ کیا ہو گی اس بندے کی؟ 60 لاکھ روپے، گاڑی ملی ہوئی ہوگی اس اینکر کو فارچونرز یا لینڈ کروزر، ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلنے کیلئے، وہ عوام کی بات کیوں نہیں کرتا؟ اس کے دو مسئلے ہیں، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ کی تنخواہ 60 لاکھ روپے ماہانہ ہو گی، آپ کو گاڑی مل جائے گی، اور آپ کسی کالونی میں شفٹ ہو جاؤ گے اور بچے بھی پڑھنے جا رہے ہوں گے کسی گرامر اسکول میں، تو آپ سے بھی یہ باتیں نہیں ہوں گی، تمہیں سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ اصل پرابلمز کیا ہیں؟
پروگرام کے میزبان سے مخاطب ہو کر انہوں نے کہا کہ تم یہی فیصل ہو گے، لیکن تمہاری سوچ بدل چکی ہو گی، انسان جب اپنے لوگوں سے کٹ جاتا ہے تو اس کے خیالات بھی وہ نہیں رہتے جو اپنے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے ہوتے ہیں، موٹر سائیکل والے کے مسائل موٹر سائیکل والا ہی جانتا ہے، میں جن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں میں انہی کے ساتھ باتیں کروں گا، جب ایک کہہ رہا ہے کہ میں تھائی لینڈ جا رہا ہوں، دوسرا کہے گا، ہاں یار میں بھی مصر سے ہو کر آ جاؤں، وہ یہ باتیں تھوڑی کر رہا ہو گا کہ تیرے بجلی کے بل کا کیا ہوا یار؟ کتنا سرچارج لگ گیا، یا یہ تھوڑی کہے گا کہ آج موٹر سائیکل کا پیٹرول ختم ہو گیا، وہ بائیک لٹاتا تھوڑی ہے ہماری طرح، بائیک لٹانے والے کا غم بائیک لٹانے والا ہی سمجھ سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ ایک طرف نیوز چینلز مالکان کی سوچ مکمل کاروباری ہے تو دوسری طرف اینکرز کے سوچنے کے انداز میں بھی بڑے پیکج اور بڑے مالی مفادات بنیادی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں تو یہ مفاداتی صحافت دو آتشہ ہو جاتی ہے، نتیجہ اس افسوسناک صورتحال کا یہ نکلتا ہے کہ تمام تر زور سنسنی خیزی، ریٹنگ اور زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے پر رہتا ہے اور عوام کے ایشوز ہوں یا حب الوطنی کے تقاضے سب کچھ کمپرومائز ہو جاتا ہے، اینکرز اور ان کے مالکان کی یہ ذہنی حالت ایک طرف پورے ملک کو یوں متاثر کرتی ہے کہ ذاتی اور ادارہ جاتی مالی مفادات کیلئے پھیلائی گئی ان کی غیر یقینی اور سنسنی خیزی ملک معیشت کیلئے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے تو دوسری طرف عوامی اور ریاستی حوالے سے جو اصل موضوعات زیر بحث آنے چاہیئیں وہ نظر انداز ہو جاتے ہیں، اور پورا ملک مسلسل ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار رہتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے خاص طور پر پیمرا اور پارلیمنٹ اس افسوسناک طرز عمل اور طرز فکر کی اصلاح کیلئے مثبت انداز میں اپنا کردار ادا کریں اور اس حوالے سے ایک ذمے داران میڈیا پالیسی تخلیق کرکے اس پر قومی و عوامی مفاد میں عملدرآمد یقینی بنانے کا اہتمام کیا جائے۔