پاکستانی کھیلوں کی دنیا میں ایک بار پھر ہلچل مچ گئی ہے۔ قومی جیولن تھرو اسٹار رشید ندیم، جنہیں قوم نے بڑی امیدوں کے ساتھ ورلڈ چیمپئن شپ میں بھیجا تھا، کامیابی نہ حاصل کر سکے۔ یہ صرف ایک کھلاڑی کی ہار نہیں تھی بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کے خواب ادھورے رہ گئے۔ ان کی اس ناکامی نے جہاں عوام کو مایوس کیا وہیں کئی حلقوں نے فیڈریشن اور کھیلوں کے نظام پر سخت سوالات اٹھائے ہیں۔ اب آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ حقیقت سامنے آسکے۔
ایک خواب جو ادھورا رہ گیا
رشید ندیم کو سب ایک ہیرو کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ گاؤں کی کچی گلیوں سے نکل کر عالمی اسٹیج تک پہنچنے والا یہ کھلاڑی لاکھوں نوجوانوں کے لیے امید کی کرن تھا۔ ہر تھرو کے ساتھ قوم کی دعائیں ان کے ساتھ تھیں۔ لیکن جب وہ اپنے بہترین کارکردگی نہ دکھا سکے تو اسٹیڈیم میں بیٹھے مداحوں کی آنکھوں میں خاموشی چھا گئی۔ وہ لمحہ صرف ایک ہار نہیں بلکہ ایک خواب کے ٹوٹنے جیسا محسوس ہوا۔
سوالات اور شکوک
ناکامی کے بعد یہ سوال شدت سے پوچھا جا رہا ہے کہ آخر اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
کیا رشید ندیم کو عالمی معیار کی تیاری دی گئی تھی؟
کیا کوچنگ اور فٹنس پر مکمل توجہ دی گئی؟
یا پھر یہ سب کچھ ایک ایسے نظام کی ناکامی ہے جہاں کھلاڑی محنت کرتے ہیں مگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ملتی ہیں؟
کھلاڑی پر دباؤ
رشید ندیم کے لیے یہ وقت سب سے مشکل ہے۔ ایک طرف ان پر قوم کی توقعات کا بوجھ تھا، دوسری طرف تنقید کا سامنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناکامی صرف کھلاڑی کی نہیں ہوتی، اس کے پیچھے پورے سسٹم کی کمزوریاں چھپی ہوتی ہیں۔ کھلاڑی میدان میں محنت کرتے ہیں مگر اگر انہیں درست کوچنگ، جدید آلات اور عالمی معیار کے کیمپس نہ ملیں تو وہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
عوام کا ردعمل
سوشل میڈیا پر بھی رشید ندیم کا نام ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ کھلاڑی ہی ہماری عزت ہیں، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے، لیکن تنقید کا رخ زیادہ تر حکام کی طرف تھا۔ عوام کا کہنا ہے کہ فیڈریشن اور کھیلوں کے ادارے صرف دعوے کرتے ہیں، حقیقت میں کھلاڑیوں کو سہولیات دینے میں ناکام رہتے ہیں۔
جوڈیشل انکوائری کی امید
کھیلوں کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جوڈیشل انکوائری صرف الزام تراشی کا جواب نہیں بلکہ نظام کو بہتر بنانے کا موقع ہے۔ اگر تحقیقات شفاف ہوں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مسئلہ کہاں ہے — کھلاڑی کی تیاری میں، کوچنگ میں، یا فیڈریشن کی بے عملی میں۔ یہ انکوائری آنے والے نوجوان ایتھلیٹس کے لیے بھی ایک نئی راہ متعین کر سکتی ہے۔
نتیجہ
رشید ندیم کی ہار ایک شخص کی ناکامی نہیں بلکہ ہمارے کھیلوں کے پورے ڈھانچے کی کمزوریوں کا آئینہ ہے۔ ان پر تنقید کرنے کے بجائے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اپنے ہیروز کو کامیابی کے لیے کیا فراہم کیا؟ جوڈیشل انکوائری صرف انصاف نہیں، بلکہ اس نظام کی اصلاح کی بھی ضمانت ہو سکتی ہے۔ اگر یہ قدم اٹھا لیا گیا تو شاید آنے والا رشید ندیم اپنی قوم کو وہ کامیابی دلا سکے جس کا خواب ہم سب نے دیکھا ہے۔