Nigah

اماراتی محقق کے چار بیویوں اور 100 بچوں کے انکشاف نے سب کو حیران کر دیا

nigah اماراتی محقق کے چار بیویوں اور 100 بچوں کے انکشاف نے سب کو حیران کر دیا

دنیا میں آئے روز ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جو سن کر انسان کے ہوش گم ہوجاتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں سامنے آنے والی ایک خبر نے سب کو چونکا دیا ہے۔ ایک اماراتی محقق نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی چار بیویاں ہیں اور وہ سو کے قریب بچوں کے والد ہیں۔ یہ سن کر نہ صرف عرب دنیا بلکہ دنیا بھر کے لوگ حیرت میں ڈوب گئے۔

ایک انوکھا طرزِ زندگی

عام طور پر لوگ شادی اور چند بچوں کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں، مگر یہ صاحب اس روایت کو بہت آگے لے گئے۔ محقق کا کہنا ہے کہ بڑی فیملی ان کے نزدیک طاقت اور نعمت کی علامت ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں اور اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک ایسا خاندان ہے جو تعداد میں کئی خاندانوں کو ملا دے۔

سوشل میڈیا پر ہلچل

خبر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ "یہ صاحب تو پورا اسکول یا شاید ایک چھوٹا شہر آباد کر چکے ہیں۔” کسی نے ہنستے ہوئے لکھا کہ اتنے بچوں کے نام یاد رکھنا بھی ایک امتحان ہوگا۔ لیکن سنجیدہ حلقوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اتنے بڑے خاندان کے ساتھ انصاف کرنا ممکن ہے؟ ہر بچے کو وقت دینا، تعلیم دلوانا اور ان کی ضروریات پوری کرنا کتنا مشکل کام ہے؟

ذمہ داری کا پہلو

ناقدین کا خیال ہے کہ زیادہ بچے ہونا اپنی جگہ ایک حیران کن بات ہے، مگر اصل کامیابی بچوں کو اچھی تربیت اور بہتر مستقبل دینا ہے۔ اگر محقق واقعی اپنے سو بچوں کو یکساں توجہ اور سہولت دے سکتے ہیں تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔ لیکن اگر یہ صرف تعداد تک محدود ہو اور بچوں کو حق نہ مل سکے تو یہ سوچ معاشرتی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔

روایتی سوچ اور جدید حقیقت

یہ معاملہ ایک اور بحث کو جنم دیتا ہے۔ مشرقی معاشروں میں ماضی میں بڑے خاندان کو طاقت اور عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگر آج کے دور میں چھوٹے اور محدود خاندان کو زیادہ عملی اور بہتر ماڈل مانا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک شخص کا چار بیویوں اور سو بچوں کا والد ہونا ایک غیر معمولی حقیقت ہے جو روایتی سوچ اور جدید دور کے درمیان کشمکش کو اجاگر کرتی ہے۔

عالمی ردعمل

یہ خبر صرف عرب دنیا تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر بھی چھا گئی۔ دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ حیرت اور مزاح کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس پر تبصرہ کرتے دکھائی دیے۔ کسی نے اسے "معاشرتی تجربہ” کہا تو کسی نے سنجیدگی سے پوچھا کہ کیا اتنے بڑے خاندان کے لیے ایک پورا محلہ کافی ہوگا؟

اختتامی کلمات

اماراتی محقق کے انکشاف نے نہ صرف سب کو حیران کیا بلکہ یہ سوچنے پر بھی مجبور کیا کہ خاندان کی اصل کامیابی کیا ہے۔ کیا یہ صرف بچوں کی تعداد میں ہے یا ان کی اچھی پرورش، تعلیم اور بہتر مستقبل میں؟ شاید یہی سوال اس خبر کا سب سے بڑا پیغام ہے۔

یہ کہانی ایک عام خبر نہیں بلکہ ایک ایسی بحث کا آغاز ہے جو ہمارے معاشرتی رویوں، روایتی سوچ اور جدید زمانے کے تقاضوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔

اوپر تک سکرول کریں۔