دنیا میں خود کو ایک ذمہ دار عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے والا بھارت درحقیقت دوغلے پن اور منافع خوری کی ایک ایسی مثال ہے جس نے عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک طرف نئی دہلی مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات اور سیاسی اعتماد بڑھانے کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف پس پردہ روس پر عائد عالمی پابندیوں کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے چند سرمایہ دار دوستوں کو کھربوں روپے کمانے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ اس کھیل کا سب سے بڑا کردار بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا قریبی ساتھی اور دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے والا مکیش امبانی ہے جس کی کمپنی ریلائنس انڈسٹریز روسی تیل کی سب سے بڑی خریدار اور بیوپاری بن چکی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کے دیرینہ ساتھی مکیش امبانی اس وقت روسی تیل کے سب سے بڑے خریدار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ریلائنس انڈسٹریز نے اربوں ڈالر کے سودے کر کے مغربی دنیا کی عائد کردہ پابندیوں کو بے اثر کر دیا۔ امریکی اور یورپی حکام نے کئی بار نئی دہلی کو اس عمل پر ناراضی کا پیغام دیا لیکن بھارت نے ہر بار توانائی کی ضرورت کا بہانہ تراش کر اپنے سرمایہ دار دوستوں کے مفادات کو ترجیح دی۔ جہازوں کی ٹریکنگ رپورٹس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ بھارت کی یومیہ 1.5 ملین بیرل روسی تیل کی درآمدات کا بڑا حصہ صرف دو پرائیویٹ اداروں کے قبضے میں ہے۔ ریلائنس انڈسٹریز (مکیش امبانی) اور نایارا انرجی (روسنیفٹ کے زیر انتظام) یہ ڈیل عوامی مفاد یا بھارتی عوام کے توانائی بحران کے حل کے لیے نہیں کی گئی بلکہ صرف ارب پتی طبقے کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بنی۔
جون 2025 میں اعداد و شمار نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ بھارت میں استعمال ہونے والے ہر دوسرے بیرل کا ماخذ روس تھا۔ روسی تیل کا حصہ 45 فیصد تک جا پہنچا۔ اس انحصار نے بھارت کی معیشت اور توانائی سیکٹر کو ایک غیر متوازن راستے پر ڈال دیا۔ ریلائنس اور نایارا نے مل کر بھارت کی 81 فیصد ایندھن برآمدات پر قبضہ جما لیا۔ صرف ریلائنس انڈسٹریز نے یومیہ 9 لاکھ 14 ہزار بیرل برآمد کیے جو بھارت کی کل برآمدات کا 71 فیصد ہے۔ جام نگر ریفائنری اپنی پیداوار کا 67 فیصد بیرونِ ملک فروخت کر رہی ہے تاکہ یورپ اور ایشیا میں مہنگے داموں بیچا جا سکے۔ یوں ایک طرف بھارتی عوام کو تیل اور گیس کے نرخوں میں کوئی خاطر خواہ ریلیف نہیں ملا اور دوسری طرف امبانی کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
یہ ستم ظریفی اپنی جگہ ہے کہ جب مغرب نے روس کو الگ تھلگ کرنے کے لیے پابندیاں لگائیں تو بھارت کی پرائیویٹ ریفائنرز خریدار بن گئیں۔ انہوں نے روس سے سستا خام تیل خریدا اور یورپ و ایشیا کو مہنگے داموں ایندھن فروخت کر کے کھربوں کمائے۔ لیکن بھارتی عوام کو اس سارے کھیل سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ نہ پٹرول سستا ہوا، نہ گیس کی قیمت کم ہوئی۔ الٹا بھارت میں غربت اور عدم مساوات مزید بڑھ گئی۔ عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹیں یہ واضح کرتی ہیں کہ 2025 تک بھارت میں امارت اور غربت کے درمیان فرق تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
یہ تمام کھیل بھارتی حکومت کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یہ ایک منظم ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والا ریکٹ ہے جس میں مودی حکومت نے عوامی مفاد کو پس پشت ڈال کر اپنے سرمایہ دار دوستوں کو نوازا۔ سرکاری ریفائنریز کو نظرانداز کر کے صرف ریلائنس اور نایارا کو روسی تیل کے سودوں تک رسائی دی گئی۔ مودی حکومت نے ایک طرف دنیا کے سامنے غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھا اور دوسری طرف پس پردہ اپنے قریبی حلقوں کو کھربوں روپے کمانے کا موقع دیا۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بھارت کا نیوٹرل کردار محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔
امریکہ اور یورپ کو سب سے زیادہ دھچکا اس وقت لگا جب یہ انکشاف ہوا کہ ان کے پابندیوں کے باوجود روسی تیل بھارت کے ذریعے یورپ واپس پہنچ رہا ہے۔ یورپی ریفائنریز کو وہی تیل مہنگے داموں بیچا گیا جو پابندیوں کے تحت براہِ راست روس سے نہیں خریدا جا سکتا تھا۔ یہ عمل نہ صرف بھارت کے دوغلے کردار کو ظاہر کرتا ہے بلکہ مغربی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات میں مستقل بداعتمادی پیدا کرتا ہے۔ بھارت نے ایک طرف واشنگٹن اور برسلز سے اسٹریٹجک شراکت داری کی بات کی اور دوسری طرف انہی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر روسی تیل کے سودے کیے۔
بھارت کے اس کردار نے نہ صرف اس کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ روس کو بھی مزید طاقتور بنا دیا۔ مغرب کی کوشش تھی کہ روس کو عالمی مارکیٹ سے کاٹ دیا جائے لیکن بھارت جیسے ممالک نے یہ خلا پر کر دیا۔ روس کو اپنے تیل کی فروخت کے لیے نیا خریدار مل گیا۔ پابندیوں کے باوجود ماسکو کی معیشت کو سہارا ملا۔ یوکرین جنگ میں روس کو مالی طور پر کمزور کرنے کی مغربی حکمت عملی ناکام ہو گئی۔ یوں بھارت نے اپنی وقتی تجارتی کامیابی کے لیے نہ صرف عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کی بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی یکسر بدلنے میں کردار ادا کیا۔
یہ پورا منظرنامہ اس فریب کو عیاں کرتا ہے جس کے ذریعے بھارت دنیا کو ذمہ دار عالمی طاقت ہونے کا تاثر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی دہلی کی پالیسی کا محور صرف سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔ بھارت کی حکومت ایک طرف جمہوریت، شفافیت اور عالمی قوانین کی پاسداری کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن دوسری طرف عملی طور پر ایسے سودے کرتی ہے جو عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ریلائنس انڈسٹریز اس دوغلے کھیل کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہ کمپنی وزیراعظم مودی کی سیاسی سرپرستی میں نہ صرف کھربوں کماتی رہی بلکہ بھارت کے عالمی وقار کو بھی داؤ پر لگاتی رہی۔
بھارت کا اصل چہرہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ روسی تیل کے سودے اس بات کا ثبوت ہیں کہ نئی دہلی کے نزدیک عوامی مفاد، عالمی قوانین اور اخلاقی اقدار کی کوئی حیثیت نہیں۔ اصل اہمیت صرف سرمایہ دار دوستوں اور سیاسی طاقت کے تحفظ کو دی جاتی ہے۔ مودی اور مکیش امبانی کا یہ گٹھ جوڑ دراصل بھارت کے اس دوغلے پن کی واضح عکاسی ہے جس نے ایک طرف عوام کو غربت کی چکی میں پیسا اور دوسری طرف عالمی سطح پر بھارت کو بدنام کیا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔
View all posts