Nigah

ایس سی او، ابھرتی متبادل عالمی قوت

nigah observer guardian SCO ijlas

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا 25 ویں سربراہی اجلاس سے عالمی سیاست، معیشت کی بہتری اور طاقت کے توازن کو نئے زاویے سے تعین کرنے میں مدد ملے گی۔ چین کے صنعتی و سفارتی مرکز تیانجن میں منعقد اجلاس میں رکن ممالک میں علاقائی تعاون، عالمی سلامتی اور نئی صف بندیوں کے پہلو پر اظہار خیال کیا۔ پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کی۔ اگرچہ پاکستان شدید سیلابی مرحلے اور معاشی مشکلات سے گزرا ہے مگر اس کے باوجود اجلاس میں شرکت کو سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا۔ اجلاس میں ایک پہلو بڑا نمایاں تھا جب چینی صدر نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ وزیراعظم پاکستان کا استقبال کیا جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے استقبال کے وقت خاتون اول موجود نہیں تھیں۔ کیا یہ ایک غیر رسمی مگر طاقتور اشارہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کی گہرائی کا مظہر تھا۔ ایسے مواقع پر سفارتی علامتیں ہی اصل بیانیہ تشکیل دیتی ہیں۔ چین نے دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان صرف ہمسایہ یا شرکت دار نہیں بلکہ قابل اعتماد اتحادی ہے۔

کثیر قطبی دنیا کا پیغام
عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز وہ لمحہ بھی بنا جب چینی و روسی صدور اور بھارتی وزیراعظم نے ایک دوسرے سے گرم جوشی سے مصافحہ کے بعد ہاتھ تھام لیے جو عالمی میڈیا کے مطابق
"کثیر قطبی دنیا”
کی تشکیل کا پیغام ہے۔
یعنی اتحادِ تغیر بھی قرار دیا گیا۔”Axis of Upheaval ” اس منظر کو

یہ تصویر مغربی بلاک کے مقابل ایک متبادل عالمی نظام کے خد و خال کی عکاسی بھی تھی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کے ذریعے امریکہ اور مغرب کے یک طرفہ نظام کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا گیا۔

روس نے مغربی پابندیوں، نیٹو کی توسیح اور عالمی معاشی نظام میں امریکی اجارہ داری پر شدید تنقید کی۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ عالمی اقتصادی ڈھانچے میں توازن کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ بھارت نے یوکرین میں پائیدار امن کی حمایت اور روایتی مغربی جھکاؤ کے برعکس روس اور چین سے نرمی اور مفاہمت کی زبان استعمال کی جو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ عالمی صف بندی میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

بھارت کی چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور فوجی نقصانات کے باوجود تعلقات کی "ظاہری مرمت” کی کوشش کی گئی۔ روس کے ساتھ روایتی تعلقات اور امریکہ سے قربت کے درمیان واضح تضاد دکھائی دیا گیا۔

ایس سی او کے کئی فوائد ہیں۔ اس سے علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ ملتا ہے۔ دہشت گردی، منشیات کی روک تھام کے علاوہ معاشی ترقی اور چین کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنانے کا مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ سینٹرل ایشیا تک تجارتی راستے کھلیں گے۔ بیلٹ اینڈ روٹ انیشیٹو اور سی پیک جیسے منصوبوں کو علاقائی سطح پر ہم آہنگ کرنے کا موقع ملے گا۔ عالمی سطح پر امریکہ اور مغرب پر اعتماد کم کرنے سے متبادل ذرائع دستیاب ہوں گے۔

nigah putin moodi shake hand

تاہم شنگھائی تعاون تنظیم کے بھرپور ثمرات سے مستفید ہونے میں بھارت کے پاکستان اور چین سے سرحدی تنازعات، مسئلہ کشمیر، رکن ممالک میں اعتماد کا فقدان، روس کے معاشی مسائل، پاکستان میں امن و امان اور کمزور معیشت حائل ہیں۔

چین نے اجلاس میں ترقیاتی توانائی تعاون کے پلیٹ فارم اور قرضہ سکیم متعارف کروانے کی تجویز پیش کرنے کے علاوہ "کثیر الجہتی حکمرانی” اور سرد جنگ کی ذہنیت کی خاتمے پر زور دیا۔ چین نے ایس سی او کانفرنس کے ذریعے ایک پیغام دیا کہ "امن اور بقائے باہم” کے اصولوں پر علاقائی تنازعات کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ یہ اصول خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات جیسے حساس مسائل کے حل میں امید کی نئی کرن بن کر ابھرا ہے۔

ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان تجارتی حجم عالمی سطح پر اب بھی محدود ہے۔

امریکی اور مغربی بالادستی کم کرنے کے لیے ڈالر کے مقابلے میں گلوبل ریزرو کرنسی، فوجی وعسکری برتری، سفارتی ٹیکنالوجی، میڈیا پر غلبہ ناگزیر ہیں۔ ورلڈ بینک، اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور نیٹو جیسے اداروں پر اثر و نفوذ میں اضافہ سے ہی اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ایس سی او میں شامل ممالک دنیا کی 43 فیصد آبادی اور ایک چوتھائی عالمی معیشت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چین، روس، بھارت اور پاکستان جیسی جوہری طاقتوں کی موجودگی اسے ایک سٹریٹیجک حیثیت فراہم کرتی ہے۔

امریکی بلاک کے ممالک متفق جبکہ ایس سی او والے مختلف معاشی، سماجی اور مسلکی کلاسز میں تقسیم ہیں۔ ایس سی او کا مستقبل محفوظ اور پائیدار بنانے کے لیے رکن ممالک کو داخلی تضادات سلجھانے ہوں گے۔ اقتصادی تعاون کو موثر طریقے سے نافذ کرنا ہوگا۔ سفارتی ہم آہنگی کے فروغ سے تنظیم ایک مضبوط عالمی قوت بن کر ابھر سکتی ہے۔ ابھی یہ مکمل متبادل نہیں لیکن دنیا کو ایک نیا راستہ ضرور دکھا رہی ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔