Nigah

بھارت میں بڑھتی مذہبی انتہا پسندی۔ ہاپڑ کا واقعہ اور اقلیتوں کا مستقبل

nigah muslim terror

بھارت جسے دنیا سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتی ہے، آج وہاں جمہوری اقدار اور آئینی مساوات کے اصول تیزی سے زوال پذیر ہیں۔ اترپردیش کے ضلع ہاپڑ میں پیش آنے والا واقعہ اس حقیقت کی سنگین یاد دہانی ہے کہ بھارت میں مسلمان اپنی شناخت کی بنیاد پر بدترین امتیاز اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔

تین نوجوان وسیم، رضوان اور عامر کو صرف اس بنیاد پر ہندو انتہا پسند ہجوم نے گھیر کر لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں سے بیدردی سے مارا پیٹا کہ وہ مسلمان تھے۔ یہ واقعہ محض ایک انفرادی حادثہ نہیں بلکہ بھارت کے اندر تیزی سے بڑھتے ہوئے منظم مسلم مخالف تشدد اور نفرت انگیز جرائم کی ایک کڑی ہے۔

ہاپڑ میں تین مسلمان نوجوانوں کو سرِعام تشدد کا نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی زندگی اور سلامتی مسلسل خطرے میں ہے۔ ہجوم نے نہ صرف ان نوجوانوں کو زد و کوب کیا بلکہ اس دوران مذہبی نعرے بازی کی گئی اور واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔

یہ سب کچھ ریاستی اداروں کی موجودگی یا خاموشی میں ہوا۔ پولیس کی تاخیر سے آمد اور ملزمان کو بروقت نہ پکڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے حملوں کو ایک طرح کی غیر اعلانیہ اجازت حاصل ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ورلڈ رپورٹ 2025 نے واضح طور پر نشاندہی کی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسند گروہوں کے حملوں میں گزشتہ برسوں کے دوران خوفناک اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ رجحان وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے قوم پرستانہ بیانیے سے تقویت پاتا ہے جو مسلمانوں کو غیر اور خطرہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ رپورٹ میں ذکر ہے کہ مسلمانوں پر محض شبہ کی بنیاد پر حملے کیے جاتے ہیں۔ انہیں گائے کا گوشت رکھنے یا اسمگلنگ کے جھوٹے الزامات پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

nigah india is bleeding

"بلڈوزر جسٹس” کے نام پر ان کے گھروں اور کاروبار کو مسمار کیا جاتا ہے۔ یہ سب اقدامات نہ صرف غیر انسانی ہیں بلکہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کی کھلی خلاف ورزی بھی ہیں جو تمام شہریوں کو مساوات اور زندگی کا حق فراہم کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے 2023 کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ بی جے پی اور اس سے جڑے ہندو انتہا پسند گروہ مذہبی تہواروں کو سیاسی رنگ دے کر انہیں مسلم مخالف تشدد کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔

ان تہواروں کے موقع پر ہجوم تلواریں اور لاٹھیاں لہراتے ہیں، نفرت انگیز نعرے لگاتے ہیں اور جان بوجھ کر مسلم محلوں کے قریب اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امن و امان کی فضا بگڑتی ہے اور اکثر خونریز تصادم ہوتے ہیں۔

یہ پالیسی دراصل بی جے پی کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کو نشانہ بنا کر اکثریتی ہندو ووٹ بینک کو سیاسی طور پر متحرک کیا جاتا ہے، جس سے بھارت کے اندر سماجی ہم آہنگی اور قانون کی حکمرانی تباہ ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے 2024 کے اپنے جائزے میں بھارت کی صورتِ حال پر گہری تشویش ظاہر کی۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف بڑھتا ہوا امتیاز اور تشدد جمہوری اصولوں کی نفی کرتا ہے۔

کمیٹی نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے امتیازی پالیسیوں کا خاتمہ نہ کیا تو اس کا جمہوری اور آئینی ڈھانچہ محض دکھاوا رہ جائے گا۔

2019 میں منظور ہونے والا شہریت ترمیمی قانون (CAA) بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک اور بڑا خطرہ ہے۔ یہ قانون غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت کے حصول میں سہولت دیتا ہے جبکہ مسلمانوں کو اس حق سے محروم رکھتا ہے۔

اسی کے ساتھ قومی شہریت رجسٹری کے منصوبے نے لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ قانون نہ صرف آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے مذہبی امتیاز کو قانونی شکل دینے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

اترپردیش کے واقعے سمیت ایسے بیشتر حملے بھارت میں اس وقت ممکن ہوتے ہیں جب ریاستی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں یا حملہ آوروں کو براہ راست تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

کئی واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ پولیس تاخیر سے پہنچتی ہے، ایف آئی آر درج نہیں کرتی یا ملزمان کو معمولی الزامات کے تحت رہا کر دیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال بے خوفی کی فضا کو جنم دیتی ہے۔ ہندو انتہا پسند گروہ جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہوگی، اس لیے وہ کھلے عام نفرت پھیلاتے اور تشدد کرتے ہیں۔

ایسے واقعات کے نتیجے میں نہ صرف مسلمانوں کی جان و مال خطرے میں ہے بلکہ ان کی سماجی اور معاشی زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے۔

بار بار کے حملوں، گھروں کی مسماری اور معاشی بائیکاٹ کے باعث مسلمان روزگار کے مواقع سے محروم ہو رہے ہیں۔ طلبہ تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہیں جبکہ چھوٹے کاروباری افراد شدید نقصان کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال ایک بڑے انسانی المیے کی شکل اختیار کر رہی ہے جس کے اثرات نسل در نسل محسوس کیے جائیں گے۔

ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ جیسے ادارے مسلسل بھارت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ لیکن ابھی تک عملی سطح پر کوئی بڑی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔

عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے سیاسی اور تجارتی تعلقات کو اقلیتوں کے حقوق کے احترام سے مشروط کرے۔

اترپردیش کے ضلع ہاپڑ میں وسیم، رضوان اور عامر پر وحشیانہ حملہ دراصل بھارت کے اس چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جو خود کو دنیا کے سامنے سیکولر جمہوریت کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن اندرونِ ملک مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتا ہے۔

یہ حملہ علامت ہے اس بڑھتی ہوئی لہر کی جس میں ہندوتوا کے نظریات نے بھارتی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

بھارت کو اگر واقعی ایک جمہوری اور ذمہ دار ملک کے طور پر دنیا میں مقام حاصل کرنا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے اندر مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ ورنہ یہ نام نہاد جمہوریت صرف دکھاوا رہ جائے گی اور دنیا کے سامنے بھارت کی حقیقت ایک ایسے ملک کی ہوگی جو نفرت اور تعصب پر کھڑا ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • Azeem gul nigah pk

    ڈاکٹر عظیم گل نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں فیکلٹی ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔