راجستھان اسمبلی کے حالیہ فیصلے نے بھارت کی آئینی جماعت داری اور مذہبی آزادی کے بنیادی اصولوں کو ایک سنگین امتحان میں ڈال دیا ہے۔ بی جے پی کی زیرِ قیادت منظور شدہ یہ اینٹی کنورژن بل محض ایک مقامی قانون سازی نہیں بلکہ ایک وسیع نظریاتی ایجنڈے کی عملی تصویر دکھاتا ہے۔ جس کا مقصد مذہبی اقلیتوں کی خودمختاری کو کمزور کرنا اور اکثریتی بالادستی کو ریاستی قوت کے ذریعے نافذ کرنا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم بل کے تاریخی، آئینی اور سماجی مضمرات پر تفصیلی نظر ڈالیں گے اور اس کے ممکنہ نتائج کا اندازہ لگائیں گے اور بتائیں گے کہ یہ اقدام بھارت کے سیکولر ڈھانچے کے لیے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
راجستھان اینٹی کنورژن بل میں تبدیلیٔ مذہب کو سخت جرمانوں اور سزاؤں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ قانون کے تحت مبینہ زبردستی تبدیلی یا دھاندلی کے الزامات پر عمر قید، ایک کروڑ روپے تک جرمانہ اور جائیداد ضبط کرنے جیسی سزاؤں کا نفاذ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ بل میں فلاحی اداروں، اسکولوں اور ہسپتالوں کو بھی اس زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔ اگر انہیں ترغیب یا غیر قانونی مالی تعاون کے ذریعے مذہبی تبدیلی کا ذریعہ قرار دیا جائے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ یہ شقیں نہ صرف بدنیتی پر مبنی ہیں بلکہ اصول انصاف کو بھی پامال کرتی ہیں۔ ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی جو آئینی نظامِ عدل کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ بل نے بین المذاہب شادیوں کو بھی غلط بیانیے کے تحت ترغیب تصور کرنے کی گنجائش رکھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ محبت کی بنیاد پر قائم ازدواجی رشتے بھی ریاستی مداخلت کا شکار بن سکتے ہیں۔
بل کی ایک خطرناک شق یہ بھی ہے کہ آبائی مذہب میں واپسی کو تبدیلیٔ مذہب سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ شق آزادیٔ مذہب کے حق کی محافظ دکھائی دیتی ہے۔ مگر حقیقت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوتوا کے تحت چلنے والی گھر واپسی مہمات کو قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے جبکہ دوسرے مذاہب میں شمولیت کو جرم کے زمرے میں لایا جا رہا ہے۔ یہ واضح مذہبی امتیاز ہے۔ اس طرح ایک مذہبی تحریک کو کھلا فروغ ملے گا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو سزا کا اندیشہ رہے گا۔
اس شق کا سماجی اثر یہ ہو گا کہ مذہبی تنوع کے بجائے ایک ریاستی منظّم ہندوتوا ثقافت کو فروغ ملے گا اور اس کے نتیجے میں معاشرتی ہم آہنگی کا جو بنیادی رشتہ ہے وہ زنگ آلود ہو جائے گا۔
راجستھان اینٹی کنورژن بل میں شامل شقیں فلاحی اداروں، این جی اوز، مذہبی مدارس اور صحت و تعلیم کے مراکز کو بھی ممکنہ طور پر نشانہ بنا سکتی ہیں۔ یہ ادارے عموماً معاشرے کے کمزور طبقات کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں جیسے یتیم خانے، سکول، دیہاتی طبی مراکز وغیرہ۔ اگر کوئی بھی خدمت گزار گروپ مشکوک تسلیم کیا گیا تو اسے بند یا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کا قانون سماجی کام کرنے والی تنظیموں کے دل میں خوف ڈال دے گا۔ محروم طبقات تک پہنچنے والی امداد کم ہو جائے گی اور معاشرتی خلیج مزید بڑھ جائے گی۔ خدمت کو جرم قرار دینا آخر کار ریاست کے ذمہ دارانہ فرائض سے انحراف ہو گا۔ کیونکہ فلاحی کام عوامی بھلائی کا ایک ستون ہے نہ کہ کوئی جرم۔
بل کی دیگر شقیں رومانوی یا بین المذہب شادیوں پر ریاستی مداخلت کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ جب ریاست یہ تسلیم کر لے کہ کسی رشتے میں ترغیب ہوئی ہے تو خواتین کے ذاتی انتخاب میں مداخلت ممکن بن جاتی ہے۔ لو جہاد جیسے جھوٹے بیانیوں کو قانونی پشت پناہی ملنے کا خطرہ اسی منظر نامے میں مضمر ہے۔ یعنی خواتین کو ان کے ذاتی حقوق سے محروم کر کے انہیں ریاستی نگرانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔
دہلی یا کسی ریاست کی حکومت جب ایسے قوانین لاتی ہے جو مذہبی آزادی کو محدود کریں تو یہ براہ راست آئین ہند کے مضمون 25 و 26 کے تحت ملنے والے مذہبی حقوق اور اظہار مذہب کی آزادی کے اصولوں کے منافی ہوتا ہے۔ بھارت کے آئین نے کثیر الثقافتی، کثیر الدینی معاشرے کے تحفظ کے لیے سیکولرازم کو بطورِ سنگِ بنیاد اپنایا ہے۔ راجستھان کا یہ بیانیہ اسی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کی کوشش محسوس ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر بھی ایسے قوانین انسانی حقوق کے روایتی معیارات، بشمول مذہبی آزادی اور اظہار رائے کے حق کے خلاف مانے جائیں گے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے پلیٹ فارمز، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کا سخت نوٹس لے سکتی ہیں اور بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
راجستھان بل کو محض ایک مقامی پالیسی کے طور پر دیکھنا غلط ہوگا۔ یہ بی جے پی کے بڑے سیاسی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے جس کا مقصد آئین کے بنیادی اصولوں کو آہستگی سے کمزور کرنا اور ہندو اکثریت پسند ایجنڈے کو قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔ جب اپوزیشن جماعتیں متحرک نہ ہوں یا جمہوری فورمز میں اس کے خلاف آواز کمزور ہو تو ایسے قوانین آسانی سے نافذ ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جمہوریت کی ڈھانچہ بندی سکڑتی چلی جاتی ہے اور صدائیں دبتی جاتی ہیں۔
راجستھان اینٹی کنورژن بل کا فوری سماجی نتیجہ خوف اور عدمِ تحفظ کا ماحول ہوگا۔ مذہبی اقلیتیں روزمرہ زندگی میں عدم تحفظ محسوس کریں گی۔ ان کے تعلیمی، طبی اور فلاحی ادارے خطرے میں پڑ جائیں گے۔ بین المذاہب تعلقات میں شکوک و شبہات جنم لیں گے اور معاشرتی ہم آہنگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ نوجوان نسل میں مایوسی اور ردِ عمل بھڑک سکتا ہے اور اس کا فائدہ انتشار پسند عناصر اٹھا سکتے ہیں۔ جو بالآخر امن و امان کے لیے خطرہ بنے گا۔
یہ قانون اگر راجستھان کی حدود میں رہ کر نہ رکیں اور دیگر صوبوں کی جانب منتقل ہوں تو پورے ملک میں آئینی اور سماجی توازن بگڑ سکتا ہے۔ آئین کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کا سفر اگر ایک ریاست سے شروع ہو کر قومی سطح تک پھیل جائے تو بھارت کی سیکولر، کثیرالثقافتی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایسے حالات میں بین المذاہب بصیرت، جمہوری مزاحمت اور عدالتی چیلنجز ہی آخری قوت بن سکتے ہیں جو آئینی اقدار کو برقرار رکھیں۔
راجستھان اینٹی کنورژن بل محض ایک قانون نہیں۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ بھارت کی سیاسی سمت کس رخ مائل ہو رہی ہے۔ مذہبی آزادی، ذاتی انتخاب اور سماجی خدمت کے بنیادی حقوق کو خطرے میں ڈال کر اکثریت پسند ایجنڈا نافذ کرنا کسی جمہوری ملک کی شان کے منافی ہے۔ آئین نے جو ضمانتیں دی ہیں یعنی مذہبی آزادی، مساوات اور غیر جانبداری۔ ان کا تحفظ ہر شہری، ادارہ اور عدالتی فورم کی ذمہ داری ہے۔ وقت ہے کہ سول سوسائٹی، جمہوری جماعتیں، عدلیہ اور عالمی برادری مل کر اس رجحان کا مقابلہ کریں۔
پاکستان، دنیا یا کسی اور ملک کے نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ بھارت کے آئینی مفاد اور انسانیت کی بقا کے لیے۔ مذہب کا انتخاب ذاتی حق ہے کسی بھی ریاست کا اختیار نہیں کہ وہ اسے جرم قرار دے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔
View all posts