Nigah

جس کے پاس بھی موبائل ہے اسکے ہاتھ میں اسرائیل کا ایک ٹکڑا ہے: نیتن یاہو

nigah neaten yahoo observer
[post-views]

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں ایک جملہ کہا جس نے دنیا بھر میں بحث چھیڑ دی۔ انہوں نے کہا:
"جس کے پاس موبائل ہے، اس کے ہاتھ میں اسرائیل کا ایک ٹکڑا ہے۔"

یہ الفاظ محض ایک بیان نہیں تھے بلکہ ایک ایسے موضوع کا دروازہ کھول گئے جس میں ٹیکنالوجی، طاقت اور سیاست سب آپس میں جُڑے نظر آتے ہیں۔

ایک چھوٹے ملک کا بڑا دعوی

نیتن یاہو کا مقصد شاید یہ دکھانا تھا کہ اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جس کی ایجادیں آج ہر جگہ موجود ہیں۔ چاہے موبائل فونز میں استعمال ہونے والے مائیکروچپس ہوں یا سائبر سکیورٹی ٹیکنالوجی، اسرائیل نے اپنی پہچان ایک اختراعی طاقت کے طور پر منوائی ہے۔ ایک چھوٹے سے ملک کے لیے یہ واقعی فخر کی بات ہے کہ دنیا کا ہر شخص کسی نہ کسی طرح اس کی ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے۔

عوام کا ردِعمل: فخر یا خوف؟

یہ بیان سننے کے بعد لوگوں کا ردِعمل ملا جلا تھا۔ کچھ نے کہا یہ اسرائیل کی کامیابی ہے کہ اس کے بغیر دنیا کی روزمرہ زندگی ادھوری ہے۔ لیکن دوسری جانب بہت سے لوگوں کو یہ جملہ عجیب اور پریشان کن لگا۔ موبائل فون چونکہ ہماری زندگی کا سب سے ذاتی آلہ ہے، اس لیے یہ سوچنا کہ اس میں کسی اور ملک کا "حصہ” ہے، کئی لوگوں کو بے چینی میں مبتلا کر گیا۔

ٹیکنالوجی اور نگرانی کے خدشات

یہ جملہ صرف فخر کا نہیں بلکہ خدشات کا باعث بھی بنا۔ خاص طور پر اس وقت جب "پیگاسس اسپائی ویئر” جیسے اسکینڈلز سامنے آ چکے ہیں، جن میں موبائل فونز کو نگرانی کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایسے میں نیتن یاہو کے الفاظ کئی لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی صرف سہولت نہیں بلکہ کنٹرول اور اثر و رسوخ کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔

عام صارف کے لیے پیغام

اگر ہم روزمرہ زندگی میں دیکھیں تو موبائل ہمارے دوستوں، خاندان اور کام سب کا مرکز ہے۔ لیکن یہ سوچنا کہ ایک ملک اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری زندگی میں شامل ہے، ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ دنیا کس طرح بدل چکی ہے۔ اب طاقت صرف فوجی ہتھیاروں میں نہیں بلکہ ڈیجیٹل آلات اور ڈیٹا میں بھی ہے۔

جملے کی اصل معنویت

نیتن یاہو کے یہ الفاظ چاہے فخر کے لیے کہے گئے ہوں یا سیاسی دفاع کے طور پر، مگر انہوں نے ایک بات واضح کر دی ہے: ٹیکنالوجی صرف ایجاد نہیں بلکہ ایک نئی قسم کی طاقت ہے۔ یہ طاقت خاموشی سے ہماری جیبوں میں موجود ہے، اور ہم چاہے چاہیں یا نہ چاہیں، اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔

نتیجہ

یہ بیان ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارا موبائل فون صرف رابطے کا آلہ نہیں بلکہ ایک ایسی دنیا کی جھلک ہے جہاں سیاست، ٹیکنالوجی اور طاقت سب ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ نیتن یاہو کے الفاظ ہمیں ایک سوال کے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں:
کیا ہم ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں، یا ٹیکنالوجی ہمیں استعمال کر رہی ہے؟

اوپر تک سکرول کریں۔