پاکستان کی معیشت میں حالیہ برسوں کے دوران اتار چڑھاؤ ضرور رہا ہے۔ لیکن 12 ستمبر 2025 کا دن ایک مثبت پیش رفت کے طور پر سامنے آیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 19.73 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اس میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 21 ملین ڈالر اضافے کے بعد 14.36 ارب ڈالر جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 34 ملین ڈالر اضافے کے بعد 5.38 ارب ڈالر تک جا پہنچے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف معاشی استحکام کی علامت ہیں بلکہ پاکستان کی مالیاتی پالیسیوں کی درست سمت کا بھی ثبوت ہیں۔
زرمبادلہ کے ذخائر کسی بھی ملک کی مالی صحت کے پیمانے سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ذخائر نہ صرف بیرونی قرضوں کی ادائیگی، درآمدات کی مالی معاونت اور کرنسی کے استحکام کے لیے ناگزیر ہیں بلکہ عالمی سطح پر اعتماد بڑھانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ اضافہ خاص طور پر اہم ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں ملک کو بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ، تجارتی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ اب بڑھتے ہوئے ذخائر اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ پاکستان عالمی دباؤ کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے کے قابل ہو رہا ہے۔
ذخائر میں حالیہ اضافہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے مالی نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ غیر ضروری درآمدات پر قابو پانا، برآمدات کو بڑھانے کے لیے مراعات دینا، ترسیلات زر کو باقاعدہ نظام کے تحت لانا اور آئی ٹی ایکسپورٹس میں اضافہ انہی پالیسیوں کے عملی نتائج ہیں۔ ان اصلاحات کے باعث پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں کمی آئی ہے اور روپے کی قدر میں بھی نسبتاً استحکام دیکھنے میں آیا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کا بھی مظہر ہے۔ ماضی قریب میں غیر یقینی صورتحال کے باعث پاکستان میں سرمایہ کاری کی رفتار سست پڑ گئی تھی لیکن اب معاشی اعداد و شمار بہتری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سرمایہ کار جانتے ہیں کہ مضبوط ذخائر کا مطلب ہے کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں ادائیگیوں کے دباؤ سے آزاد ہو کر زیادہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان کی کرنٹ اکاؤنٹ پوزیشن حالیہ عرصے میں بہتر ہوئی ہے۔ ایک جانب برآمدات میں اضافہ دیکھنے کو ملا، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات میں۔ تو دوسری جانب ترسیلات زر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ 2025 کے وسط تک بیرون ملک پاکستانیوں نے تقریباً 35 ارب ڈالر سے زیادہ رقوم پاکستان بھیجیں جو ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں کمی براہِ راست ذخائر پر مثبت اثر ڈالتی ہے اور مستقبل کے لیے بہتر توازن فراہم کرتی ہے۔
جب کسی ملک کے ذخائر بڑھتے ہیں تو عالمی ادارے اور ریٹنگ ایجنسیز بھی اس ملک کی معاشی پوزیشن کو بہتر زاویے سے دیکھنے لگتی ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نیا موقع ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی مالی ساکھ کو مزید مستحکم کرے۔ بہتر ذخائر کا مطلب ہے کہ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ زیادہ مؤثر انداز میں مذاکرات کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف قرضوں کے نئے پروگرامز میں آسانی ہوگی بلکہ سرمایہ کاری کے مزید مواقع بھی میسر آئیں گے۔
ذخائر میں اضافے میں برآمدات اور خاص طور پر آئی ٹی سیکٹر نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سافٹ ویئر ایکسپورٹس اور فری لانسنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2024–25 میں آئی ٹی برآمدات کا حجم 4 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں ایک بڑا اضافہ ہے۔ اسی طرح زراعت اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں بھی نمایاں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ ان شعبوں کی ترقی مستقبل میں ذخائر کو مزید مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
بڑھتے ذخائر پاکستان کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی زیادہ اعتماد اور آسانی کے ساتھ کر سکے۔ ماضی میں اکثر یہ خدشہ رہتا تھا کہ پاکستان اپنے قریبی قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینے پر مجبور ہوگا لیکن اب ذخائر کے بہتر ہونے سے یہ اندیشے کم ہو گئے ہیں۔ یہ پالیسی نہ صرف عالمی منڈیوں میں اعتماد بڑھائے گی بلکہ پاکستان کے لیے سود کی شرح پر قرض حاصل کرنے کی شرائط بھی بہتر کرے گی۔
ذخائر کے بڑھنے کے اثرات عوامی سطح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ روپے کی قدر مستحکم رہنے سے مہنگائی کے دباؤ میں کمی آتی ہے اور درآمدی اشیاء نسبتاً سستی ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح کاروباری طبقہ طویل مدتی منصوبہ بندی کر سکتا ہے کیونکہ انہیں کرنسی میں اچانک اتار چڑھاؤ کا خدشہ کم ہوتا ہے۔ اگر یہ تسلسل برقرار رہا تو متوسط طبقے اور عوام کو براہِ راست فائدہ ہوگا۔
اگرچہ موجودہ اعداد و شمار حوصلہ افزا ہیں لیکن پاکستان کو مستقبل میں کچھ اہم چیلنجز کا سامنا بھی رہے گا۔ سب سے بڑا چیلنج درآمدات پر قابو اور برآمدات کو مزید بڑھانا ہے۔ توانائی کا بحران، صنعتی پیداوار میں رکاوٹیں اور عالمی مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال بھی خطرات میں شامل ہیں۔ اسی طرح سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کی کمی مستقبل میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ اگر حکومت نے ان چیلنجز پر قابو پا لیا تو ذخائر میں تسلسل کے ساتھ اضافہ جاری رہے گا۔
پاکستان کے ذخائر کا 19.73 ارب ڈالر تک پہنچنا بلاشبہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ کامیابی محض ایک عددی پیش رفت نہیں بلکہ اس کے پیچھے مالی نظم و ضبط، بہتر پالیسیاں اور عوام و سرمایہ کاروں کا اعتماد شامل ہے۔ تاہم یہ کامیابی مستقل بنانے کے لیے برآمدات کے فروغ، توانائی کے مسائل کے حل اور پالیسیوں کے تسلسل پر توجہ دینا ہوگی۔ اگر یہی رفتار جاری رہی تو پاکستان نہ صرف موجودہ مشکلات پر قابو پا لے گا بلکہ خطے میں ایک مستحکم اور بااعتماد معیشت کے طور پر ابھرے گا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔
View all posts
